
ٍجب مارشل لائ لگتے ہیں تو ہتھیارپھینک دیتے ہیں،چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائزعیسیٰ
منگل 3 اکتوبر 2023 22:42

(جاری ہے)
کہ اگر اپیل کا حق دے دیا گیا ہے تو کیا قیامت آگئی،سنگین غداری میں بھی متاثرہ فریق اپیل کرے گا۔
ازخودنوٹس کے غلط استعمال پر پارلیمنٹ نے اپیل کا حق دیا ہے، سپریم کورٹ جنگل کا بادشاہ ہے جو چاہے کرے،ایسے تو ملک آئین پر نہیں ججز کے فیصلوں کے ذریعے بنائے قوانین پر چلے گا۔فروضوں کی نہیں حقیقت کی زبان جانتا ہوں،مولوی تمیز الدین سے شروع کریں یا نصرت بھٹو سے،انہوں نے کہا آئین کے ساتھ جو کھلواڑ کرنا چاہو کرو، پاکستان کے ساتھ کھلواڑ ہونے نہیں دے سکتے انھوں نے یہ ریمارکس منگل کے روزدیے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تشکیل کردہ فل کورٹ بینچ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کی جسے براہ راست نشر کیاگیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 15 رکنی فل کورٹ بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔آج سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون سے چیف جسٹس پاکستان اور سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججز متاثر ہوئے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف چیف جسٹس کے اختیارات محدود نہیں تو کم ضرور کیے جا رہے ہیں، دوسری طرف، وہی اختیارات سینئر ججوں میں تقسیم کیے جا رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ قانون مستقبل کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے سینئر ججز پر بھی لاگو ہوگا۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ میں نے محسوس کیا کہ انہیں سماعت کرنے والے بنچ کا حصہ نہیں بننا چاہیے لیکن چونکہ اس نے تمام ججوں کو متاثر کیا ہے، اس لیے یہ مناسب سمجھا گیا کہ فل کورٹ کیس کی سماعت کرے۔سپریم کورٹ میں پیش وکلا سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ان پر زور دیا کہ وہ ایسے نکات پر بات کریں جو کیس سے متعلق ہوں، انہوں نے کہا کہ ہم آج کیس کو نمٹانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر وکلا اضافی دلائل دینا چاہیں تو عدالت میں تفصیلی تحریری جواب جمع کرا سکتے ہیں۔اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے وکیل اکرام چوہدری نے ایکٹ کا ابتدائی پیراگراف پڑھ کر سنایا، انہوں نے استدلال کیا کہ پیراگراف اشارہ کرتا ہے کہ قانون ’مخصوص یا کسی خاص مقصد‘ کے لیے نافذ کیا جا رہا ہے۔تاہم چیف جسٹس نے مداخلت کرتے ہوئے استفسار کہ کیا قانون میں یہ بات موجود ہے یا یہ بات وکیل کہہ رہے ہیں، ایسے الفاظ کو قانون میں نہ ڈالیں جو اس میں موجود نہیں ہیں، اگر یہ آپ کا تاثر ہے تو یہ بات واضح کریں۔وکیل نے پھر ایکٹ کا سیکشن 3 پڑھا جس میں کہا گیا ہے کہ ججوں کی ایک کمیٹی عوامی اہمیت کے کیسز کی سماعت بینچ تشکیل دے گی، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ یہ شق قانونی دائرہ کار میں تجاوز ہے۔انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 183 میں اضافہ پارلیمنٹ میں صرف دو تہائی اکثریت کے ساتھ کیا جا سکتا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ایکٹ کے سیکشن 8 نے ‘‘عدلیہ کی آزادی کے تصور کو ختم کر دیا ہے۔اکرام چوہدری نے کہا کہ ترمیم سے ایسے دائرے میں داخل ہونے کی کوشش کی گئی ہے جو پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں نہیں ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ قانون ادھوری پارلیمنٹ نے پاس کیا جس کے پاس آئینی ترامیم کا اختیار نہیں تھا۔ایک موقع پر وکیل نے استدلال کیا کہ ایکٹ کا نفاذ بذات خود آئین کی مکمل تردید کرتا ہے، انہوں نے کہا کہ جب کوئی قانون ہے بنیادی طور پر غیر آئینی ہے تو یہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں ہوگا کہ وہ اس پر غور کرے اور اسے غیر آئینی قرار دے۔ایک موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جب آپ عدلیہ کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو کیا یہ کوئی الگ چیز ہے یا یہ عوام اور ان کے حقوق کے لیے ہی کیا عدلیہ کی آزادی ہی وہ واحد تصور ہے جس کا ہر حال میں دفاع کیا جانا چاہیی سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال قانون سازی کی اہلیت کا ہے۔ ‘‘شاید سوال یہ نہیں کہ یہ قانون کتنا ’اچھا‘ یا ’برا‘ ہے، سوال قانون سازی کی اہلیت ہی اگر سوال اہلیت کا ہے تو معاملہ ایک سمت میں آگے بڑھتا ہے لیکن اگر جواب یہ ہے کہ قانون سازی کی اہلیت نہیں ہے تو پھر یہ معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ایک اور موقع پر چیف جسٹس نے وکیل کی جانب سے طویل وقت لینے پر کہا کہ یہ کیس آج کے بعد نہیں چلے گا۔سماعت کے دوران اکرام چوہدری نے کہا کہ آرٹیکل 239 حکومت کو دو تہائی اکثریت کے بغیر آئینی ترامیم کرنے سے روکتا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمنٹ اس ایکٹ کو بنانے کی اہل نہیں ہے کیونکہ اس کیلیے لازمی طور پر آئینی ترمیم کی ضرورت ہے جس کے لیے بالکل مختلف طریقہ کار کی ضرورت ہے اور چونکہ اس طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا گیا، اس لیے یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ پارلیمنٹ ایسے قانون کو بنانے کی اہل نہیں تھی جس کا اثر آئین میں ترمیم کا ہو۔جس پر چوہدری اکرام نے کہا کہ ہاں یہ ہی میرا مؤقف ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ان کی رائے میں قانون نے صرف انصاف تک رسائی محفوظ اور یقینی ے بنائی، کیا پارلیمنٹ انصاف تک رسائی کے حوالے سے قانون سازی کرنے کی اہل نہیں ہی اپیل کی فراہمی انصاف تک رسائی ہے، چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنا بھی انصاف تک رسائی کا ایک عنصر ہے۔وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ اس قانون سازی نے عدلیہ کی آزادی کو متاثر کیا اور عدالت کے اندرونی امور کو بھی مکمل طور پر ریگولیٹ کیا، پارلیمنٹ نے اپنے مینڈیٹ سے ما ورا کام کیا ہے۔اس کے بعد وکیل حسن عرفان نے اپنے دلائل شروع کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ سوال قانون سازی کی اہلیت کا ہے، انہوں نے کہا کہ عدلیہ ریاست کے تین ستونوں میں سے ایک ہے۔انہوں نے کہا کہ بل کو صدر مملکت کی کی منظوری کے لیے بھیجا گیا تھا جس پر انہوں نے اعتراض اٹھایا، وکیل نے کہا کہ اس سے بل کی منظوری پر پارلیمنٹ کے اندر تنازع کا اشارہ ملتا ہے۔انہوں نے استدلال کیا کہ قانون سپریم کورٹ کے کام کی جگہ لے رہا ہے اور اسے کمیٹی کو منتقل کر رہا ہے جسے ‘‘عدالتی فعل نہیں سمجھا جا سکتا اور یہ ایک انتظامی فعل ہو گا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ مؤقف اپنا رہے ہیں کہ انفرادی طور پر چیف جسٹس اس طاقت کو استعمال نہیں کر سکتے اور یہ اختیار خصوصی طور پر سپریم کورٹ کو حاصل ہے جس کا مطلب ہے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے تمام ججز ۔حسن عرفان نے کہا کہ اختیارات عدالت عظمیٰ کو دیے گئے جس نے سپریم کورٹ رولز بنائے اور پھر سپریم کورٹ نے اپنا مکمل اختیار چیف جسٹس کو دے دیا۔اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے نوٹ کیا کہ آرٹیکل 191 نے سپریم کورٹ کو ایسے قوانین بنانے کا اختیار دیا جو انتظامی نوعیت کے ہوں، بینچوں کی تشکیل اور مقدمات کا تعین انتظامی اختیار ہے۔انہوں نے نوٹ کیا کہ تو قانون کیا کرتا ہے، یہ چیف جسٹس سے اختیار لیتا ہے اور اسے مزید دو ججوں میں تقسیم کرتا ہے، انتظامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے عدالت اپنے اختیارات تفویض کر سکتی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس طاقت کا استعمال آرٹیکل 191 کے تحت کیا گیا ہے جو آئینی مینڈیٹ ہے، لہٰذا جہاں آئینی مینڈیٹ سپریم کورٹ کو رولز بنانے کا اختیار دیتا ہے وہاں ان قوانین کے ساتھ ایک خاص تقدس وابستہ ہوتا ہے، آرٹیکل 191 کہتا ہے کہ آئین اور قانون کے تابع سپریم کورٹ عدالتی امور اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے لیے رولز بنا سکتی ہیاس کے بعد عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا، جب دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو حسن عرفان نے اپنے دلائل جاری رکھے اور عدالت پر زور دیا کہ وہ آرٹیکل 184(3) کے حقیقی مقصد پر نظرثانی کرے، انہوں نے مؤقف اپنایا کیا کہ آرٹیکل میں یہ نہیں کہا گیا کہ اپیل دائر کرنے کے لیے آئینی حق کی خلاف ورزی کی جانی چاہیے، اس کے بعد انہوں نے آرٹیکل پڑھا۔جب ان سے استفسار کیا گیا کہ درخواست گزار کس بنیادی حق کا نفاذ چاہتا ہے تو وکیل نے جواب دیا کہ یہ انصاف تک رسائی کا حق ہے۔یہاں جسٹس محمد علی مظہر نے نشاندہی کی کہ وکیل بنیادی حقوق کے بجائے عوامی اہمیت کا حوالہ دے رہے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے پھر استفسار کیا کہ اگر چیف جسٹس کے خصوصی حقوق ہیں تو کیا انصاف تک رسائی متاثر نہیں ہوتی وکیل نے مؤقف اپنایا کہ یہ چیف جسٹس کا اختیار ہے کہ وہ سماعت کے لیے بینچ مقرر کریں یا نہ کریں لیکن وہ یہ فیصلہ نہیں کریں گے کہ اس درخواست پر سماعت ہونی چاہیے یا نہیں جب کہ اس کا فیصلہ یہ کمیٹی کرنے والی ہے۔یہاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حسن عرفان سے نئے قانون کی ان کی تشریح کے بارے میں استفسار کیا، اس کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جب وکیل قانون کی بنیاد میں جا رہے ہیں تو انہیں پہلے جواب دینے کی ضرورت ہے کہ اس کی منظوری سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔انہوں نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ فل کورٹ سماعت کے دوران درخواست گزاروں اور حکومت کی مختلف خیالات نے ثابت کیا کہ یہ درخواست قابل استقلال ہے، اس لیے اس پہلو پر دلائل کی ضرورت نہیں۔جب حسن عرفان نے نوٹ کیا کہ آئین سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ دونوں کے لیے ایک ہی ہے، انہوں نے کہا کہ تمام عہدوں کے حلف میں آئین کا تحفظ، حفاظت اور دفاع کے الفاظ مشترک ہیں، اس کے بعد وکیل نے ججوں کا حلف بلند آواز میں پڑھ کر سنایا۔جب حسن عرفان نے کہا کہ آئین پر عمل کرنا پارلیمنٹ کا بھی فرض ہے جس پر چیف جسٹس عیسیٰ نے زور دے کر استفسار کیا کہ کیا اس پر کوئی دو رائے ہو سکتی ہیں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وکیل نے ایک موضوع کا ذکر کیا لیکن پھر اس پر دلائل دیے بغیر دوسرے پر چلے گئے، میں نے ابھی تک اپنا قلم استعمال نہیں کیا، میں آپ کے دلائل سمجھوں گا تو کچھ لکھوں گا۔’’جسٹس مظہر علی نقوی کی جانب سے پوچھا گیا کہ کیا پارلیمنٹ کے پاس قانون بنانے کا اختیار ہے یا نہیں تو حسن عرفان نے نفی میں جواب دیا، اس سوال پر کہ وکیل کا خیال ہے کہ کسی معاملے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہونا چاہیے اور اس پر اپیل کی اجازت نہیں ہونی چاہیے حسن عرفان نے جواب دیا کہ وہ ایسا نہیں سمجھتے۔چیف جسٹس عیسیٰ نے روشنی ڈالی کہ وکلا اور سول سوسائٹی نے ماضی میں آرٹیکل 184(3) کے زیادہ استعمال پر اعتراض کیا تھا۔وکیل نے استدلال کیا کہ جب بھی نیا چیف جسٹس آئے گا، فیصلوں اور بینچوں کے حوالے سے بے یقینی ہوگی، اس پر چیف جسٹس عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم اگلے مارشل لا کا دروازہ کھول دیں سماعت کے دوران چیف جسٹس عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ قانون کا تعلق لوگوں کے فائدے سے ہے یا ان کے نقصان سے ہے نہ کہ چیف جسٹس کے فائدے سے ہے۔جسٹس منیب اختر نے نوٹ کیا کہ سپریم کورٹ کو اپنے ماضی کے فیصلوں کو درست کرنے کے لیے اپیل کے حق کی ضرورت نہیں ہے، انہوں نے سوال کیا کہ کیا قانون کا سیکشن 3 آرٹیکل 184(3) سے براہ راست متصادم ہی جسٹس منصور علی شاہ نے پھر وکیل سے پوچھا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے بارے میں قانون سازی کر سکتی ہے، اس پر حسن عرفان نے نفی میں جواب دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب تک آپ تسلیم نہیں کرتے، اصلاح نہیں ہو سکتی، انہوں نے نوٹ کیا کہ کسی ایک بینچ کے فیصلے کو ترجیح دینا آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہو سکتا ہے۔ تمام ججز مجھے فل کورٹ اجلاس بلانے کا کہیں اور میں نہ بلاوں تو کوئی کچھ نہیں کر سکے گا،پارلیمنٹ نے کہا کہ چیف جسٹس کو اچھا لگے یا نہیں لیکن یہ ایکٹ بنانا ہے،چیف جسٹس خود سے کبھی یہ قانون نہ بناتے، چیف جسٹس کے اختیارات کو تقسیم کرنا مقصود تھا،چیف جسٹس کے غیر مناسب کنڈکٹ بارے کون کچھ کہہ سکتا ہے۔جمہوریت اور اسلام میں ایک شخص کو تمام اختیارات دینے کی اجازت نہیں،وکیل علی عزیر بھنڈاری نے کہاکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر میں کہاں لکھا ہے کہ مقدمات کیسے مقرر ہونگی قانون صرف بنچز تشکیل دینے کے حوالے سے ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ مقدمات مقرر کرنے کے لیے میرے دائیں بائیں بیٹھے فرشتے نظر رکھیں گے،جسٹس مظاہر نقوی نے کہاکہ سپریم کورٹ کا مطلب چیف جسٹس اور تمام ججز ہیں، چیف جسٹس رولز کے تحت ججز کو انتظامی امور سونپتے ہیں، تین رکنی کمیٹی بن گئی تو کیا ججز کے درمیانی برابری کا اصول ختم نہیں ہوجائے گا جسٹس اظہر من اللہ نے کہاکہ ممکن ہے کل پی ٹی آئی اقتدار میں آئے تو پارلیمان کے ویڑن کو کیوں چیلنج کر رہی ہی وکیل نے کہاکہ پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو پریکٹس اینڈ پروسیجر سے اچھا قانون آئینی طریقے سے بنائے گی،چیف جسٹس نے کہاکہ اگر سترہ ججز بھی یہی غلطیاں کرنی ہے تو پھر اپیل کا حق ہونا ہی چاہیے،بطور سیاسی جماعت اپ کو گھبراہٹ کیوں ہے،اپیل کا حق ملنے سے ہو سکتا ہے آپ کو فائدہ ہو، وکیل نے کہاکہ اسی عدالت پر حملہ بھی ہوا، چیف جسٹس نے کہاکہ ہمارے سامنے ایسی باتیں نہ کریں، وکیل نے کہاکہ پارلیمنٹ پر بھی حملے ہوتے ہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ ہم پارلیمنٹ کو بھی تحفظ دینا جانتے ہیں،مجھے بطورِ چیف جسٹس کہا جائے کہ رولز بنانے کے لیے فل کوٹ میٹینگ بلا لیں میں انکار کر دوں تو کوئی کچھ بھی نہیں کر سکتا،تعجب ہے کہ کسی نے اسلام پر بات نہیں کی،چیف جسٹس نا قابل احتساب کیسے ہو سکتا ہے، اگر میرا کنڈینکٹ بہت زیادہ نا قابلِ قبول ہو جائے تو کیا ہو گا، جسٹس منیب اخترنے کہاکہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی مستقل نہیں ہوتی بلکہ مدت ملازمت کی ریٹائرمنٹ بھی ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ : سماعت پیر تک ملتوی کرتے ہیں۔چیف جسٹس نے بعدازاں سماعت کا آرڈر لکھوانا شروع کردیاجس میں کہاگیاہے کہ اس قانون کو غیر قانونی کہنے والے دو درخواست گزاروں کے وکیل رہتے ہیں۔ہم ائیندہ سماعت پر دونوں وکلا کو سنیں گے۔ دونوں وکلا کو پندرہ منٹ کا وقت دینگے۔ پہلے وکلا دوسرے وکیل کے دلائل ایڈاپٹ کرتے تھے۔لیکن اب ٹی وی کی وجہ سے سب بولنا چاھتا ہے۔ حکم ناے میں عدالت نے کہاکہ : زمان خان وردگ نے تحریری دلائل جمع کرائے ہیں ان کو ریکارڈ لا حصہ بناتے ہیں۔ پیر کو تین وکلا جو اس قانون کو ائین کے خلاف سمجھتے ہیں ان کو سنیں گے۔آئندہ سماعت پر پی ایم ایل ن، ایم کیوایم کے وکلا اس قانون کے حق میں دلائل دینگے۔تمام وکلا ائندہ سماعت تک تحریری دلائل جمع کرائیں۔چیف جسٹس نے امیدظاہرکی کہ پیر کو انشائ اللہ اخری دن ہوگا سماعت کا بعدازاں : سماعت پیر تک ملتوی۔گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت ملتوی کرتے ہوئے فریقین کو 25 ستمبر تک عدالتی سوالات کے جوابات کے ساتھ تحریری دلائل جمع کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ بینچوں کی تشکیل کے لیے دونوں سینئر ججوں سے مشاورت کر رہا ہوں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے آخر میں حکم نامہ لکھواتے ہوئے کہا تھا کہ بینچوں کی تشکیل کے لیے سینئر ترین جج سردار طارق مسعود اور جج اعجازالاحسن سے مشاورت کر رہے ہیں اور یہ ہم اپنے طور پر کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے فریقین سے کہا تھا کہ وہ اپنے دلائل مختصر اور جامع رکھیں اور سماعت کی تاریخ 3 اکتوبر مقرر کردی تھی، جس پر درخواست گزار کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے اتفاق کیا تھا۔حکم نامے میں چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے دائر کی گئیں درخواست فل کورٹ کی تشکیل کی بنیاد پر نمٹا دی گئی ہیں۔جسٹس سید منصور علی شاہ نے نیب ترمیمی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس سے درخواست کی تھی کہ وہ نیب ترمیمی کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے پر غور کریں یا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی قانونی حیثیت کا فیصلہ ہونے تک انتظار کریں۔اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان کو 18 ستمبر کو ہونے والی سماعت کے لیے نوٹس پہلے ہی جاری کیے جا چکے ہیں۔10 اپریل 2023 کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اس وقت کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی طرف سے پیش کیا گیا سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل متفہ رائے سے منظور کیا گیا۔12 اپریل کو وفاق حکومت کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات سے متعلق منظورہ کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا۔اسی روز سپریم کورٹ میں ایکٹ منظوری کے خلاف 4 درخواستیں دائر کی گئیں، 2 درخواستیں وکلا اور دو شہریوں کی جانب سے دائر کی گئیں، جنہیں 13 اپریل کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔13 اپریل کو سپریم کورٹ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو کم کرنے سے متعلق ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ پر تاحکم ثانی عملدرآمد روک دیا تھا۔21 اپریل کو عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 پارلیمنٹ کے بعد صدر سے دوبارہ منظوری کی ا?ئینی مدت گزرنے پر از خود منظور ہوکر قانون کی شکل اختیار کرگیا۔قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری بیان کے مطابق مجلس شوریٰ (پارلیمان) کا سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 دستور پاکستان کی دفعہ 75 کی شق 2 کے تحت صدر سے منظور شدہ سمجھا جائے گا۔بینچز کی تشکیل کے حوالے سے منظور کیے گئے اس قانون میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے قانون میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔قانون میں کہا گیا کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔یہ بھی واضح رہے کہ واضح رہے کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کا نفاذ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے 13 اپریل کو معطل کر دیا تھا۔درخواست گزاروں نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا تصور، اس کی تیاری، اس کی توثیق اور اس کو منظور کیا جانا بددیانتی پر مبنی ہے، لہٰذا اسے خلاف آئین قرار دے کر کالعدم کیا جائے۔درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتی جو عدالت عظمیٰ کے آئین کے تحت کام یا چیف جسٹس سمیت اس کے دیگر ججز کے اختیارات میں مداخلت کا باعث ہو یا جس کے ذریعے اس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی جائے۔مزید اہم خبریں
-
امریکہ پاکستان اور بھارت کے بحران میں مداخلت نہیں کرے گا، وینس
-
نئے پوپ رابرٹ پریوسٹ کو عالمی رہنماؤں کی مبارک باد
-
مودی کے مظالم کیخلاف عمران خان نے ہمیشہ آواز اٹھائی ہے، علی امین گنڈاپور
-
ہمارے پاس دنوں میں انتظار کرنے اور تحمل دکھانے کا وقت نہیں، خواجہ آصف
-
ایل او سی پر بھارتی فوج کی فائرنگ، پاک فوج نے کئی بھارتی چیک پوسٹیں اور بٹالین ہیڈ کوارٹر تباہ کردیا
-
عوام کا حکومت پاکستان پر بھارت کو جواب دینے کا دباؤ ہے، رضوان سعید شیخ
-
وزیر اعظم شہباز شریف کی پوپ کے انتخاب پر دنیا بھر کی مسیحی برادری کو مبارکباد
-
پاک فوج نے بھارت کے اسرائیلی ساختہ مزید 6 ڈرونز گرا دیئے، تعداد 35 ہوگئی
-
امریکہ نے بھارت اور پاکستان سے مسلح تصادم بند کرنے کا کہا ہے،ترجمان امریکی محکمہ خارجہ
-
عمران خان کی جان کو جیل میں خطرہ ہے ، پیرول پر رہائی کیلئے عدالت میں درخواست دائر
-
آئی ایم ایف میٹنگ: پاکستان کو امداد کی بھارت کی طرف سے ممکنہ مخالفت
-
پاک بھارت کشیدگی، محسن نقوی سے قائم مقام امریکی سفیر کی 48 گھنٹوں میں دوسری اہم ملاقات، موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.