ٹیکسی ڈرائیور کے قتل کے مقدمے میں سزائے موت کا ملزم بری

پراسیکیوشن اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہی، گواہوں کے بیانات میں بھی تضاد پایا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کا تحریری فیصلہ

Sajid Ali ساجد علی منگل 20 فروری 2024 11:01

ٹیکسی ڈرائیور کے قتل کے مقدمے میں سزائے موت کا ملزم بری
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 فروری 2024ء ) لاہور ہائیکورٹ نے ٹیکسی ڈرائیور کے قتل کے مقدمے میں سزائے موت کے ملزم کو بری کردیا، عدالت نے شک کا فائدہ دیتے ہوئے الفت رسول کو بری کیا۔ تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس ملک شہزاد احمد خان اور جسٹس محمد امجد رفیق نے اپیل کا تحریری فیصلہ جاری کیا، جس مین کہا گیا ہے کہ پراسیکیوشن اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہی، مقدمہ تاخیر سے درج ہوا اور مقدمہ درج کرتے وقت کوئی نامزد ملزم نہیں تھا، ملزم الفت کو بعد میں نامزد کیا گیا۔

فیصلے میں لاہو ہائیکورٹ کا کہنا ہے کہ مدعی کے مطابق ملزم الفت کی بیوی کا مقتول شفیق کے ساتھ تعلق تھا، مدعی کے مطابق ملزم الفت نے اس وجہ سے بھائی شفیق کو قتل کیا، اس بناء پر ملزم الفت کی بیوی ملزمہ کو کیوں مقدمے میں شامل نہیں کیا گیا؟ ملزم الفت کی بیوی کے موبائل سے ملنے والی مقتول شفیق کی تصاویز کا فرانزک نہیں کروایا گیا، گواہوں کے بیانات میں بھی تضاد پایا گیا۔

(جاری ہے)

بتایا جارہا ہے کہ ملزم الفت کو تھانہ پاکپتن میں درج مقدمے میں جولائی 2018ء میں نامزد کیا اور ٹرائل کورٹ نے 2019ء میں ملزم الفت کو سزائے موت کا حکم دیا تھا۔ ادھر آن لائن ٹیکسی ڈرائیور شاہ زیب کے قتل میں خاتون سمیت کئی افراد کے ملوث ہونے کا انکشاف سامنے آیا ہے، کراچی میں قتل ہونے والے نوجوان کے قتل کی تحقیقات جاری ہیں، پولیس کا کہنا ہے کہ قتل میں ملوث افراد گورنمنٹ آف سندھ کے نمبر کی گاڑی میں تھے، مبینہ قاتل لاش پھینکنے کے بعد شاہزیب کی گاڑی چلا کر لے جا رہے تھے، گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر ایک لڑکی بھی بیٹھی تھی اور گاڑی کا ٹریکر بند ہونے پر لڑکی کو سرکاری گاڑی میں منتقل کیا گیا۔

پولیس نے بتایا کہ مقتول کو مارنے کے بعد خون روکنے کی کئی کوششوں کے بھی شواہد ملے، خون روکنے کے لیے جن چیزوں کا استعمال کیا گیا وہ الگ مقام سے ملے، پھینکی گئی چیزوں میں ایک ہوٹل کے کمرے کی چابی بھی ملی، جس ہوٹل کے کمرے کی چابی ملی وہ حیدرآباد کے راستے میں آتا ہے، پولیس کی ٹیم تفتیش کے لیے ہوٹل روانہ کر دی گئی اور نوجوان کے قتل کا مقدمہ والد کی مدعیت میں درج کر لیا گیا۔