دیوار کے پیچھے خفیہ قوت ہی حکومت کو چلائے گی، مولانا فضل الرحمن
پی ٹی آئی سے پوچھتا ہوں جب اس وقت آپ حکومت بنا رہے تھے تو دھاندلی نہیں ہوئی اور آج دھاندلی ہوئی ہے،سربراہ جے یو آئی(ف) ش* کیا پارلیمنٹ اتنی بڑی مجبوری بن جائے کہ ہم اس کی ممبر شپ کیلئے بوٹ چاٹتے رہیں، سڑکوں پر آؤں گا تو اپنے زور بازو پر آؤں گا،وکلاء سے مشاورت جاری ہے ،عدالتی فیصلہ کیخلاف نظر ثانی اپیل دائرکرینگے،خطاب
جمعرات 22 فروری 2024 20:30
(جاری ہے)
فضل الرحمان نے کہا کہ دعوے سے کہتا ہوں اس الیکشن میں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پچھتر سالہ کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں، وردیاں عزت نہیں دیتیں بلکہ وردیوں میں کردار عزت دیتے ہیں۔
ہم جمہورت کے علمبردار ہیں، ہمارے بزرگ اس آئین کے بانی ہیں اور اس آئین کے تحفظ کو ہم اپنی ذمہ داری تصور کرتے ہیں لیکن آئین کی کوئی حیثیت نہیں، آئین چند ٹکڑوں کا نام ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں، اکثریت کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ قرآن کے فیصلوں کو بدل دے۔ یہاں ہمارے پارلیمنٹ کی حاکمیت نہیں ہمارے ملازمین کی حاکمیت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم کس طرح اس نظام کے ساتھ چلیں گی پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور ہم نے مل کر تحریک چلائی ہے، ان پارٹیوں کے راہنما کنٹینروں پر ہوتے تھے اور ہمارے کارکن سڑکوں پہ ہوتے تھے، 2018 میں بھی آپ کا یہی مینڈیٹ تھا اور آج بھی یہی ہے۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کل دھاندلی ہوئی تھی اور آج دھاندلی نہیں ہوئی، پی ٹی آئی کا بھی وہی مینڈیٹ ہے جو 2018 میں ملا تھا۔ پی ٹی آئی سے پوچھتا ہوں جب اس وقت آپ حکومت بنا رہے تھے تو دھاندلی نہیں ہوئی اور آج دھاندلی ہوئی ہے، پارلیمنٹ میں میری قوت کسی اور کی مرہون منت ہے لیکن جب سڑکوں پر آؤں گا تو اپنے زور بازو پر آؤں گا۔سربراہ جمعیت علمائے اسلام کا کہنا تھا کہ کرسی بانٹ حکومت کی کوئی افادیت نہیں، ہم پھونک پھونک کر آگے جا رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں ہماری فوج ملکی دفاع کی صلاحیت رکھے، بیرونی دشمن تو دور کی بات ملک کے اندر 20 سال سے دہشت گردی ہو رہی ہے، دہشت گردی بڑھ رہی ہے اور یہ پتہ نہیں کیا کر رہی ہیں، جب دفاعی قوت سیاسی قوت بن گئی ہے تو تنقید میرا حق ہے۔ کیا پارلیمنٹ اتنی بڑی مجبوری بن جائے کہ ہم اس کی ممبر شپ کیلئے بوٹ چاٹتے رہیں۔2018 کے انتخابات کے بعد خیال تھا کہ اس دفعہ منصفانہ اور شفاف انتخابات ہوں گے ،ایک بار پھر ہماری خواہش اور آئین کی بالا دستی کو کچل دیا گیا ہے ،مجھے فکر ہے کہ ایک الیکشن کے بعد دوسرا بھی متنازع ہو تو پارلیمان کی اہمیت کیا ہوگی ،پارلیمنٹ کو ہم سپریم ادارہ کہتے ہیں ،اگر اسٹیبلشمنٹ ایک ایک حلقے سے مرضی کے نمائندے چنے گی تو وہ عوام کا نمائندہ نہیں ہوگا ،اگر عوام کے نمائندے نہیں ہوں گے تو پارلیمنٹ کی کیا اہمیت ہوگی،فضل الرحمن نے کہا کہ ہمارے بزرگوں نے اس آئین پر دستخط کئے ،آئین کے تحفظ کو اپنی زمہ داری تصور کرتے ہیں لیکن آئین کی کوئی حیثیت نہیں ہے ،جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہا ہے دنیا کو کیا جواب دیں گے ،یہاں تو پارلیمنٹ کی بجائے ہمارے ملازمین کی اہمیت ہے،آئین کی کوئی حیثیت نہیں ،ہم دنیا کو کیا جواب دیں گے ،حاکمیت اللہ کی ہے یہاں تو پارلیمنٹ کی حاکمیت نہیں بلکہ ہمارے ملازمیں کی حاکمیت ہے ،پھر کس طرح اس نظام کے ساتھ چلیں گے ،ن لیگ اور پی پی ہمارے دوست ہیں۔آئین کے چند ٹکڑوں کا نام ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں،اکثریت کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ قرآن کے فیصلوں کو بدل دے،یہاں ہمارے پارلیمنٹ کی حاکمیت نہیں ہمارے ملازمین کی حاکمیت ہے،ہم کس طرح اس نظام کے ساتھ چلیں گی ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کو دیکھتے ہیں کہ وہ بڑھ رہی ہے اور یہ لوگ کیا کھیل کھیل رہے ہیں ،دفاعی قوت پر تنقید نہین کرتا لیکن جب دفاعی قوت سیاسی قوت بن گئی ہے تو پھر سیاسی قوت پر تنقید ہوگی،انہوں نے کہا کہ ہمیں اب سوچنا تو چاہیے کہ پارلیمانی سیاست کریں یا نہ کریں ،جب سڑکوں پر آؤں گا تو مکمل طاقت کے ساتھ آؤں گا ،سڑکوں پر آنے کیلئے کسی کے تائید کی ضرورت نہیں ہے ،کرسی بانٹ حکومت کی کوئی افادیت نہیں ہے ،مسلم لیگ ن کی حکومت ہو یا پیپلز پارٹی کی ایک دوسرے کو بلیک میل کرتے رہیں گے ،کیا حکومت ایک دوسرے کی مطالبات پورے کرسکے گی یا نہیں ،بیس سال سے دہشت گردی بڑھ رہی ہے لیکن جنگ ختم نہیں ہورہی ،انہوں نے کہا کہ ہم جلسے میں جاتے تو کہتے ہیں کہ مت جاؤ تمھارے پیچھے خود کش ہیں ،لیکن مخالفین کے جلسوں کو سیکورٹی فراہم کی جاتی ،پارلیمنٹ کی ممبر شپ کے لئے بوٹ نہیں چاٹ سکتے ،ہم ملک کے لئے اچھا سوچ رہے تھے ،لیکن اس سوچ کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کیوں کی گئیں،مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یہ ملک ہمارا ہے اس کو چلا نا اور حفاظت کرنا اور نظریاتی حوالے سے قرآن سونے کے ہم آہنگ بنانا ہماری ذمہ داری ہے،کس طرح قرآن کی تحریف کا راستہ اپنایا گیا ،جو قرآنی حوالے دئے گئے اس کی تفسیر وہ نہیں جو کی گئی،پارلیمنٹ ایک چھوٹی سی قانون سازی بھی نہیں کرسکتی،یہ ملک ہمارا ہے اس کو چلا نا اور حفاظت کرنا اور نظریاتی حوالے سے قرآن سونے کے ہم آہنگ بنانا ہماری ذمہ داری ہے،سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مندرجات جو پڑھیں ،کس طرح قرآن کی تحریف کا راستہ اپنایا گیا ،جو قرآنی حوالے دئے گئے اس کی تفسیر وہ نہیں جو کی گئی،وکلاء سے بات کی ان شاء اللہ نظرثانی کی اپیل دائر کریں گے اور جے یو آئی اس میں فریق ہوگی ،اگر عیسائی اپنے لوگوں کو تعلیم دے تو دیتا رہے،تحریف کرنے والا ہے کون وہ سوائے قادیانی کوئی اور نہیں۔مزید اہم خبریں
-
پاکستانی نوجوانوں میں غیر روایتی پیشے اپنانے کا بڑھتا ہوا رجحان
-
موبائل فونز کی درآمدات میں 180 فیصد اضافہ
-
وزیرداخلہ کانادرا سنٹر شملہ پہاڑی کا دورہ ،شہریوں نے شکایات کے انبار لگا دئیے
-
لاہور میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے پولیس سب انسپکٹر کو قتل کردیا
-
تحریک انصاف مذاکرات نہیں ڈیل کی درخواستیں دے رہی ہے، وزیراطلاعات سندھ
-
عوام کیلئے مہنگائی کا ایک اور "تحفہ"، بجلی مہنگی کر دی گئی
-
انصاف اس طرح ہونا چاہیے جیسا قانون کہتا ہے،چیف جسٹس نے اپنا اختیار کم کر کے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا‘ اعظم نذیر تارڑ
-
حکومت کا کام دعویٰ کرنا نہیں، کام کر کے دکھانا ہے، شاہد خاقان عباسی
-
علی امین گنڈاپور پختونوں کے نام پر دھبہ اور غیرت پر سوالیہ نشان ہے
-
وفاقی وزیرداخلہ کی چینی قونصل جنرل سے ملاقات، دوطرفہ تعاون وچینی شہریوں کی سکیورٹی پر تبادلہ خیال
-
وزیرخارجہ کا اقتصادی سفارت کاری اور بیرون ممالک کے ساتھ سرمایہ کاری کے تعلقات کو فروغ دینے کی کوششوں کی ضرورت پر زور
-
بانی چئیرمین نے اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی اجازت دے دی
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.