ذوالفقار علی بھٹو کے کیس میں فئیر ٹرائل کے بنیادی حق پر عمل نہیں کیا گیا اور ان کو فئیر ٹرائل کا حق نہیں ملا. سپریم کورٹ

آئین اور قانون ایسا طریقہ کار فراہم نہیں کرتا کہ اس کیس کا فیصلہ اب کالعدم قرار دیا جائے لارجربنچ نے کہا کہ کیس میں نظرثانی کی درخواست خارج اور حتمی فیصلہ ہو چکا ہے.چیف جسٹس کے ریمارکس

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 6 مارچ 2024 12:45

ذوالفقار علی بھٹو کے کیس میں فئیر ٹرائل کے بنیادی حق پر عمل نہیں کیا ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔06 مارچ۔2024 ) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت سے متعلق سابق صدر آصف علی زرداری کے 2011 میں ارسال کیے گئے صدارتی ریفرنس پر قراردیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے کیس میں فئیر ٹرائل کے بنیادی حق پر عمل نہیں کیا گیا اور ان کو فئیر ٹرائل کا حق نہیں ملا.

نو رکنی لارجر بینچ نے متفقہ رائے میں قرار دیا ہے کہ اس معاملے پر متفق ہے ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل آئین و قانون کے مطابق نہیں تھا مشاورتی دائرہ اختیار میں اس کیس میں شواہد کا دوبارہ جائزہ نہیں لے سکتے.

(جاری ہے)

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل اور سپریم کورٹ میں اپیل کی کارروائی بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھی البتہ آئین اور قانون ایسا طریقہ کار فراہم نہیں کرتا کہ اس کیس کا فیصلہ اب کالعدم قرار دیا جائے لارجربنچ نے کہا کہ کیس میں نظرثانی کی درخواست خارج ہو چکی ہے جب کہ حتمی فیصلہ ہو چکا ہے سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ماضی کی غلطیاں تسلیم کیے بغیر درست سمت میں آگے نہیں بڑھا جا سکتا یہ فیصلہ عدالتی نظیر ہے یا نہیں اس سوال میں قانونی اصول کو واضح نہیں کیا گیا تاریخ میں کچھ مقدمات ہیں جنہوں نے تاثر قائم کیا کہ عدلیہ نے ڈر اور خوف میں فیصلہ کیا.

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم ججز قانون کے مطابق فیصلہ کرنے اور ہر شخص کے ساتھ یکساں انصاف کے پابند ہیں، عدلیہ میں خود احتسابی ہونی چاہیے، بھٹو صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی متفقہ رائے ہے، کسی حکومت نے پیپلزپارٹی کی حکومت کا بھیجا گیا ریفرنس واپس نہیں لیا. انہوں نے ریمارکس دیے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل فوجی آمر ضیا الحق کے دور میں ہوا، صدر نے ریفرنس دائر کرکے بھٹو فیصلہ کو دیکھنا کا موقع دیا، صدر مملکت نے ریفرنس بھیجا جسے بعد کی حکومتوں نے واپس نہیں لیا انہوں نے ریمارکس دیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل شفاف نہیں تھا، ان کی سزا آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھی.

سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کا فیصلہ تبدیل کرنے کا کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں ہے، آئین اور قانون ایسا مکینزم نہیں فراہم کرتا کہ بھٹو کیس کا فیصلہ اب کالعدم قراردیا جائے، ذوالفقار علی بھٹو کیس میں نظر ثانی درخواست خارج ہو چکی، فیصلہ حتمی ہو چکا، ہماری رائے یہی ہے کہ بھٹو کو فئیر ٹرائل کا بنیادی حق نہیں ملا.

سپریم کورٹ نے دوسرا سوال رائے دیے بغیر واپس بھیج دیا جبکہ تیسرے اور پانچویں سوال کا جواب اکٹھے دیا عدالت نے ریمارکس دیے کہ ریفرنس میں پوچھے گیا دوسرا سوال واضح نہیں اس لیے رائے نہیں دے سکتے، دوسرے سوال میں قانونی سوال نہیں اٹھایا گیا عدالت نے ریمارکس دیے کہ چوتھا سوال سزا کا اسلامی اصولوں کے مطابق جائزہ لینے کا تھا، ریفرنس میں مقدمہ کے شواہد کا جائزہ نہیں لے سکتے، اسلامی اصولوں پر کسی فریق نے معاونت نہیں کی، اسلامی اصولوں کے مطابق فیصلہ ہونے یا نہ ہونے پر رائے نہیں دے سکتے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے، تفصیلی رائے بعد میں دی جائے گی.

کمرہ عدالت میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی جانب سے رائے سنانے جانے کے دوران بلاول بھٹو آبدیدہ ہوگئے بعدازاں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ آج سپریم کورٹ نے بھٹو صدارتی ریفرنس پر تاریخی فیصلہ دیا، ہم تفصیلی فیصلے کے منتظر ہیں، تفصیلی فیصلے کے بعد بھرپور بات کر سکوں گا.

قبل ازیں 4 مارچ کو سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی تھی، بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے دورانِ سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا تھا کہ کیا صدارتی ریفرنس میں مختصر رائے بھی دی جا سکتی ہے؟ جس پر پیپلزپارٹی کے وکیل رضا ربانی نے جواب دیا تھا کہ عدالت ایسا کر سکتی ہے، سپریم کورٹ مکمل انصاف کی فراہمی کیلئے آرٹیکل 187 کا استعمال کر سکتی ہے.