Live Updates

ٰکیس کا نام سائفر ہے ہو سفرنگ رہی ہے ،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق کے ریمارکس

سائفر کیس میں جج نے مس کنڈکٹ کیا، قانونی حق نہیں دیا گیا، پراسیکوشن سائفر کیس کے حوالے سے مکمل طور پر فیل ہوئی ہے ، وکیل سلمان صفدر

بدھ 27 مارچ 2024 19:50

CAاسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 27 مارچ2024ء) اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماعت آج جمعرات کوبھی جاری رہے گی ،جبکہ چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال اٹھایاہے کہ کیا اس کیس کی کاروائی عدالتی وقت کے بعد بھی ہوتی رہی ہے کیا عدالتی وقت کے بعد کی کارروائی کو عدالتی آرڈرز پر لکھا گیا کیا عدالتی وقت کے بعد کی کاروائی بھی آپ کی اپیل کا ایک گراؤنڈ ہے جبکہ جسٹس گل حسن نے سوال اٹھایاہے کہ کہ سائفر کی کاپی تفتیشی افسر کو نہ دینے کی قانونی وجہ کیا تھی ٹرائل کورٹ کے جج آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت آرڈر بھی کر سکتے تھے، ٹرائل جج تمام لوگوں کو کمرہ عدالت سے نکال سکتے تھے کہ اب وہ دستاویز دیکھنا ہے،انھوں نے یہ سوال بدھ کے روزاٹھایاہے۔

(جاری ہے)

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اپیلوں پر سماعتکی ،اس دوران بانی پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر، عثمان ریاض گل وایف آئی اے پراسیکوشن ٹیم میں حامد علی شاہ، ذولفقار نقوی و دیگر عدالت پیش ہوئے ا ن کے ساتھ ساتھ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی فیملی اور پارٹی قیادت کمرہ عدالت موجود رہی ، وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل کا آغاز کیا اور کہاکہ سائفر کیس میں جج نے مس کنڈکٹ کیا، قانونی حق نہیں دیا گیا، پراسیکوشن سائفر کیس کے حوالے سے مکمل طور پر فیل ہوئی ہے چیف جسٹس نے کہاکہ دو طریقے ہوتے ہیں کہ ٹرائل کیسے چلانا ہے اور کیس میرٹ پر سننا ہے، ہم آپ کی اپیلوں کو میرٹ پر سننا شروع کردیا ہیںہم نے بہت ساری چیزوں کو ابزرو کیا ہے وہ اپنی جگہ پر ہے، سلمان صفدرنے کہاکہ میں گزشتہ سات دنوں سے میرٹ پر ہی دلائل دے رہا ہوں،عدالت نے کہاکہ میڈیا رپورٹس اپنی جگہ مگر جوڈیشل آرڈر کیا اوقات کار سے متعلق موجود ہی سلمان صفدرنے کہاکہ جوڈیشل آرڈر میں بہت سارے چیزوں کو نہیں لکھا گیا ہے، ٹرائل کے دوارن اوقات کار کے حوالے سے کسی اور کیس میں طے ہوگیا تھا،عدالت نے کہاکہ سائفر کیس میں میرٹ پر کچھ چیزوں کو سن چکے ہیں، باقی بھی سن لیتے ہیں، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر کا میرٹ پر اپنے دلائل کا آغازکیااور کہاکہ شمعون قیصر اس کیس کے تیسرے گواہ ہے مجھے انکا بیان پڑھنے دے، چیف جسٹس نے کہاکہ عدالتی معاونت کے لیے کچھ چیزیں دونوں سائڈز سے مانگی گئی تھی،بیرسٹر سلمان صفدر وزارتِ خارجہ کے تیسرے گواہ شمعون قیصر کا بیان عدالت کو پڑھ کرسناتے ہوئے کہاکہ یہ کیس ہے جس میں آرٹیکل ٹین اے فئیر ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے ، جسٹس میاں گل نے کہاکہ سلمان صفدر صاحب آپ اپنے قانونی دلائل دیں ،سلمان صفدرنے کہاکہ کنفیوڑن تھی میرا صرف یہ کہنا ہے کہ میرٹ پر کیس سن کر فیصلہ کیا جائے ، یہ سات دنوں سے اپیل سنی جارہی ہے بارہ گھنٹے اپیل سنی گئی ، چیف جسٹس نے کہاکہ ہم گواہوں کے بیانات اسی لئے ہی پڑھا رہے ہیں میرٹ پر ہی سن رہے ہیں ، چیف جسٹس نے کہاکہ کیا اس کیس کی کاروائی عدالتی وقت کے بعد بھی ہوتی رہی ہے کیا عدالتی وقت کے بعد کی کاروائی کو عدالتی آرڈرز پر لکھا گیا کیا عدالتی وقت کے بعد کی کاروائی بھی آپ کی اپیل کا ایک گراؤنڈ ہے سلمان نے کہاکہ فی الحال میں اس طرف نہیں جا رہا ،کیس کا نام سائفر ہے ہو سفرنگ رہی ہے ،چیف جسٹس نے کہاکہ کیا اس کیس کی کاروائی عدالتی وقت کے بعد شام تک بھی ہوتی رہی ہی سلمان نے کہاکہ جی بالکل، رات 9 بجے تک بھی سماعت چلتی رہی،چیف جسٹس نے پھر پوچھاکہ کیا رات 9 بجے کی عدالتی کارروائی کو کسی آرڈرز میں لکھا گیا وکیل نے بتایاکہ نہیں، کسی عدالتی آرڈر میں نہیں لکھا گیاجسٹس گل حسن نے کہاکہ کیا عدالتی وقت کے بعد کی کاروائی بھی اپیل کا ایک گراؤنڈ نہیں تھا وکیل نے کہاکہ میں اپنے آپ کو محدود رکھوں گا،جسٹس گل حسن نے کہاکہ کیا ہم عدالتی وقت کے بعد کی سماعتوں کا نکتہ بھول جائیں سلمان ایڈووکیٹ نے کہاکہ اس کیس میں فئیر ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے ،سائفر کیس ایسے ہی ہے کہ جیسے قتل کا مقدمہ ہو اور لاش ہی نہ ہو، میں اپنے آپ کو محدود رکھوں گا، عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو اوریجنل ٹیکسٹ کا پتہ ہی نہیں تو ٹوئیسٹ کیسے ہوا،لکھا گیا ہے کہ وزیر اعظم آفس کی کاپی واپس نہیں آئی، اس کیس میں صرف الزام یہ ہے کہ آپ نے وزیراعظم آفس کی کاپی واپس نہیں کی، سترہ مہینے اس میں گزارے کہ کاپی واپس نہیں ہوئی اور پھر مقدمہ درج کرلیا گیا،پراسیکوشن کہہ رہی کہ سائفر ہم نے 5 کو دیا اس کا مطلب کہ انکی سیکورٹی سسٹم ٹھیک ہی نہیںجب سب کی کاپیاں اندراج مقدمہ کے بعد آئی تو باقیوں کو کیوں نوٹسسز نہیں کیا،سترہ ماہ بعد باقی آٹھ لوگوں کی کاپیاں واپس آئی، صرف عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر ہی کیوں مقدمہ درج کرلیا گیا سائفر کیس میں ان نے پراسیکوشن شروع کی ہے انکو سنا پڑے گا،فارن آفس کا کیس تھا، وزارت داخلہ کمپلیننٹ کیوں بنا یہ کہتے ہیں کہ ڈاکومنٹ واپس نا آئے تو سیکورٹی سسٹم کمپرومائز ہوتا ہے، سائفر کی کاپی پانچ افراد کو بھجوائی گئیں، ایک طرف بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی پر سائفر کا متن بتانے کا الزام ہے ، اگر انہوں نے متن بتا دیا ہے تو پھر اس متن کو صفحہ مثل پر لے آتے ، ہم سائفر پڑھیں گے تو متن کا موازنہ کرسکیں گے، پرائم منسٹر کی کاپی واپس نا آنے کے سترہ مہینے بعد ایف آئی آر کاٹی گئی،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کہہ رہے کہ انکوائری تک بہت ساری کاپی نہیں آئی سلمان ایڈووکیٹ نے کہاکہ بہت ساری نہیں ساری کاپیاں انکوائری کے بعد آئی،عدالت نے کہاکہ اگر ساری کاپیاں بعد میں آئی تو کسی اور کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی جسٹس گل حسن نے کہاکہ سلمان صاحب سائفر پر صرف آپ کے خلاف کارروائی کیوں کی گئی وکیل نے کہاکہ سائفر کو ہمارے خلاف صرف سیاسی بنیادوں پر مقدمات کیلئے استعمال کیا گیا، جسٹس گل حسن نے کہاکہ آگے جانے سے پہلے ہم کراس ایگزامن کا طریقہ کار جاننا چاہتے ہیں، وکیل نے کہاکہ شاہ محمود قریشی اپنے وکلا کو بہتر طریقے سے بریف کررہے تھے،جسٹس گل حسن نے کہاکہ کیا شاہ محمود قریشی نے کراس ایگزامن کے لیے کوئی درخواست دی تھی چیف جسٹس نے کہاکہ کیا کوئی سوال نہیں پوچھا گیا کہ باقیوں کو چھوڑ کر آپ نے ایک کو ہی پراسیکیوٹ کیا وکیل نے کہاکہ اس معاملے پر کوئی سوال نہیں پوچھا گیاٹرائل کے دوران تفتیشی سے دستاویزات دکھانے کی استدعا کی گئی،تفتیشی نے کہا کہ ہم کہا گیا دستاویزات نہیں دکھا سکتے،تفتیشی نے دستاویزات دیکھے بغیر چلان جمع کرایا اور جج صاحب نے ٹرائل چلایا، جج صاحب بار بار کہتے رہے ہیں کہ یہ سیکریٹ ٹرائل ہے عوام کو کچھ نہ کہنا اور دکھانا،عدالت نے کہاکہ جب کیس کورٹ میں آیا تو عدالت کو کوئی بھی دستاویزات دکھانا لازمی ہوتا ہے، اگر کوئی تفتیشی کو متعلقہ دستاویزات نہیں دیتے تو قانون کیا کہتا ہی وکیل نے کہاکہ اگر تفتیش کو متعلقہ دستاویزات نہیں دی جاتی تو انکو مجسٹریٹ کے سامنے جانا پڑتا ہے،کوئی ٹائم فریم نہیں ہوتا مگر ایک سال کے اندر یہ کاپی واپس آ جاتی ہے،ایف آئی آر درج ہونے سے پہلے صرف صدر ملکت کی کاپی واپس آئی، جسٹس گل حسن نے کہاکہ کیا سرکاری وکلائ کی سی ویز عدالت میں جمع کروا دی گئیں اے جی اسلام آبادکے نمائندے نے بتایاکہ جی جمع کروا دی گئی ہیں،جسٹس گل حسن نے کہاکہ کیا شاہ محمود قریشی نے خود جرح کرنے کیلئے درخواست دی وکیل نے کہاکہ تفتیشی افسر کو ڈاکومنٹ نہیں دکھایا گیا کہ یہ کلاسیفائیڈ ہے،تفتیشی افسر نے ڈاکومنٹ دیکھے بغیر چالان پیش کر دیا،ٹرائل کورٹ کے جج نے ڈاکومنٹ دیکھے بغیر چارج فریم کر دیا،جسٹس گل حسن نے کہاکہ سائفر کی کاپی تفتیشی افسر کو نہ دینے کی قانونی وجہ کیا تھی ٹرائل کورٹ کے جج آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت آرڈر بھی کر سکتے تھے، ٹرائل جج تمام لوگوں کو کمرہ عدالت سے نکال سکتے تھے کہ اب وہ دستاویز دیکھنا ہے، سلمان نے کہاکہ احتساب سب کا ایک جیسا ہونا چاہیے، استغاثہ کا کیس اس دستاویز پر ختم ہو جاتا ہے، سائفر کی نو کاپیاں نہیں بلکہ چیف جسٹس پاکستان کو بھی بھیجی گئی، چیف جسٹس کے رجسڑار نے کاپی واپس کردی، بانی پی ٹی آئی کیخلاف پرچہ ہوا تو سب نے کاپیاں واپس کردیں ، ایف آئی آر سے پہلے صرف صدر مملکت کی کاپی واپس آئی تھی، ویں نیشنل سیکورٹی کا اجلاس بلایا گیا، امریکہ میں پاکستانی سفیر اسد مجید نے کہا کہ امریکہ کو ڈیمارش کرنے کا کہا تھا،جسٹس گل حسن نے کہاکہ کیا ڈیمارش ایشو کیا گیا تھا سلمان نے کہاکہ سائفر آنے کے فوراً بعد امریکہ کو ڈیمارش بیجھا گیا،عمران خان حکومت کے بعد شہباز شریف کے زیر صدارت ایک بار پھر نیشنل سیکورٹی کا اجلاس بلایا گیا، دوسرے اجلاس میں اسے مجید نے کمیٹی کو بریف کیا اور کہا کہ پچھلا سب درست تھانیشنل سیکورٹی اجلاس کو بتایا گیا کہ لینگویج درست نہیں تھی اور اندرونی معاملات میں مداخلت تھی،نیشنل سکیورٹی اجلاس میں وزیراعظم، وفاقی کابینہ اور چاروں چیفس موجود تھے،چیف جسٹس نے کہاکہ اگر تفتیشی افسر کوئی ڈاکومنٹ مانگے اور وہ نا ملے تو اسے کیا اختیار ہوتا ہی وکیل نے کہاکہ ہر کریمنل کیس میں مقامی مجسٹریٹ اس معاملے کو دیکھتا ہے،،چیف جسٹس نے کہاکہ اگر تفتیشی افسر کو کوئی چیز نہیں دی جاتی تو وہ مجسٹریٹ کے پاس جا سکتا ہی وکیل نے کہاکہ تفتیشی افسر کہہ سکتا ہے کہ مجھے ڈاکومنٹ نہیں دیا تو چالان مرتب نہیں کر سکتا،عدالت نے پوچھاکہ نیشنل سکیورٹی کونسل اجلاس کے میٹنگ مینٹس کہاں ہیں وکیل نے بتایاکہ میٹنگ مینٹس نہیں آئے، چیف جسٹس نے کہاکہ ویسے تو ایسے مواقع پر میٹنگ مینٹس آنے چاہیے،جسٹس گل حسن نے کہاکہ تو اپکو ٹرائل کورٹ جاکر سارا کچھ بتانا چاہیے تھا، وکیل نے کہاکہ سر، آپ کے سامنے بولونگا وہاں کا کیا کہناعدالت نے کہاکہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ ڈیفنس کونسل مقرر ہو اور جب کونسل آئے تو وہ کہیں اب یہاں سے میں کرونگا،وکیل نے کہاکہ ہم نے وہاں ان سے کہا کہ پلیز آپ اس کیس میں نہ آئے ہمیں کہا گیا پلیز آپ کیس سے جائے، سلمان صفدرایڈووکیٹ کے دلائل جاری تھے کہ عدالت کاوقت ختم ہونے کی وجہ سے سائفر کیس کی سماعت آج جمعرات تک ملتوی کر دی گئی
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات