ہائیکورٹ ججوں کا خط: 300 سے زائد وکلا کا سپریم کورٹ سے آرٹیکل 184(3) کے تحت نوٹس لینے کا مطالبہ

حکومت کے زیر قیادت کوئی بھی کمیشن ان الزامات کی تحقیقات کو ضروری آزادی اور اختیارات سے محروم کردے گا، وکلاء

اتوار 31 مارچ 2024 20:20

ہائیکورٹ ججوں کا خط: 300 سے زائد وکلا کا سپریم کورٹ سے آرٹیکل 184(3) کے تحت ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 31 مارچ2024ء) اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط کے معاملے پر 300 سے زیادہ وکلا نے سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت انٹیلی جنس اپریٹس کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت کرنے کے الزامات کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔اتوار کو جاری بیان میں انہوںنے کہاکہ حکومت کے زیر قیادت کوئی بھی کمیشن ان الزامات کی تحقیقات کو ضروری آزادی اور اختیارات سے محروم کردے گا،آئین کا آرٹیکل 184(3) سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار کا تعین کرتا ہے اور اسے پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کے حامل معاملات میں سپریم کورٹ کو دائرہ اختیار استعمال کرنے کے قابل بناتا ہے۔

واضح رہے کہ 27 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دبا میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔

(جاری ہے)

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔

اس کے ایک دن بعد، مختلف حلقوں سے اس کی تحقیقات کے لیے کالز سامنے آئیں، جس کے درمیان چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے ججز کا فل کورٹ اجلاس طلب کیا۔جمعرات کو وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس عیسی سے ملاقات کی، جہاں دونوں نے کابینہ کی منظوری کے بعد عدالتی امور میں مداخلت کے خدشات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا۔

30 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے الزامات پر ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دے دی گئی، جسٹس (ر)تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن کی شرائط کار (ٹی اوآرز)کی بھی منظوری دی، ٹی او آرز کے مطابق انکوائری کمیشن معزز جج صاحبان کے خط میں عائد کردہ الزامات کی مکمل چھان بین کرے گا اور تعین کریگا کہ یہ الزامات درست ہیں یا نہیں۔

انکوائری کمیشن تعین کرے گا کہ کوئی اہلکار براہ راست مداخلت میں ملوث تھا کمیشن اپنی تحقیق میں سامنے آنے والے حقائق کی بنیاد پر کسی ایجنسی، محکمے یا حکومتی ادارے کے خلاف کارروائی تجویز کریگا، کمیشن کو یہ بھی اختیار ہوگا کہ وہ انکوائری کے دوران ضروری سمجھے تو کسی اور معاملے کی بھی جانچ کرسکے گا تاہم ملک بھر سے 300 سے زائد وکلا بشمول ایمان زینب مزاری حاضر، زینب جنجوعہ، عبدالمعیز جعفری، سلمان اکرم راجا، تیمور ملک اور سابق چیف جسٹس اور کمیشن کے سربراہ تصدق جیلانی کے صاحبزادے ثاقب جیلانی نے ایک عوامی بیان جاری کیا۔

مکمل بیان مزاری حاضر اور زینب جنجوعہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بھی شیئر کیا۔اس میں کہا گیا کہ جن تمام لوگوں نے اس پر دستخط کیے انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے الزامات کی روشنی میں قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور انصاف تک رسائی کے لیے ہماری غیر متزلزل عزم اور پوری دلی حمایت کا اظہار کرنے کے لیے بیان جاری کیا۔

ہم اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، اسلام آباد بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل، خیبرپختونخوا بار کونسل اور بلوچستان بار کونسل کی طرف سے منظور کی گئی قراردادوں کی اس حد تک توثیق کرتے ہیں کہ وہ عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھنے کا عزم ظاہر کرتی ہیں اور ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ان کے جرت مندانہ اقدام کو سراہتے ہیں اور ایسے اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے مناسب کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اس طرح کے الزامات لگائے گئے ہوں، جسٹس (ریٹائرڈ)شوکت عزیز صدیقی نے اسی طرح کے الزامات لگائے تھے اور اس کے نتیجے میں اور انہیں بغیر رسمی کارروائی کیے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے مقدمے پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے بیان میں بتایا گیا کہ یہ پاکستان میں عدلیہ کے تاریخی کردار پر فرد جرم تھا اور یہ اس حد تک قابل ستائش ہے کہ اس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی کے بارے میں عوامی تاثر متعصبانہ رہا ہے۔

اس میں کہا گیا کہ شوکت عزیز کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے سابق جج کو بری کردیا۔بیان میں بتایا گیا کہ تاہم ان میں سے کوئی بھی فیصلہ متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کے قابل نہیں، درحقیقت، ماضی کی غلطیوں کا اعتراف ایک قابل تعریف قدم ہے، تاہم اب وقت آگیا ہے کہ اصلاحات کے لیے ٹھوس اقدامات کی طرف بڑھا جائے، اس معاملے میں فوری اور شفاف طریقے سے کام کرنے میں ناکامی سے عدلیہ کی آزادی پر عوام کے اعتماد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

بیان کے مطابق جب ججز کو منظم طریقے سے ڈرایا جاتا ہے تو پورا نظام عدل ایک دھوکا بن جاتا ہے اور اپنی ساکھ کھو دیتا ہے، انصاف کے متلاشی وکلا عدالتوں کے سامنے قانونی چارہ جوئی اس امید کے ساتھ کرتے ہیں کہ ان کی سماعت غیر جانبدار ثالث سنے گا جو انصاف کی فراہمی کے خواہاں ہوں گے، اگر جج بغیر کسی خوف کے انصاف فراہم کرنے میں آزاد نہیں ہیں تو پھر وکلا سمیت پورا قانونی نظام کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

بیان میں پاکستان بار کونسل اور تمام بار ایسوسی ایشنز پر زور دیا گیا کہ وہ عدلیہ کی آزادی کو مستحکم کرنے اور اجتماعی لائحہ عمل طے کرنے کے لیے فوری بنیادوں پر وکلا کنونشن بلائیں۔بیان میں عدالت عظمیٰ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس معاملے کا اپنے دائرہ اختیار میں نوٹس لے کیونکہ یہ مسئلہ عوامی مفادات اور بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ اس معاملے سے عوام کے سامنے شفاف طریقے سے نمٹا جانا چاہیے کیونکہ یہ عدلیہ کی آزادی پر عوام کا اعتماد ہے جسے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔بیان میں بتایا گیا کہ شفافیت اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ اس معاملے کو سیاست زدہ نہ کیا جائے، ہم سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تمام دستیاب ججوں پر مشتمل ایک بینچ تشکیل دے جو اس معاملے کی سماعت کرے اور کارروائی کو عوام کے لیے براہ راست نشر کیا جائے۔

بیان میں کہا گیا کہ اس طرح کی کارروائی کا دائرہ محدود نہیں ہونا چاہیے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے خط میں لگائے گئے الزامات کے ساتھ ساتھ سابق جسٹس شوکت صدیقی کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی بھی انکوائری ہونی چاہیے۔اس کارروائی میں اگر ثابت ہو تو ایگزیکٹیو اہلکاروں کی طرف سے کی گئی خلاف ورزیوں کی ذمہ داری بھی عائد کرنی چاہیے اور عدلیہ کی آزادی کو محفوظ بنانے اور عدلیہ کے ادارے پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ذمہ داروں کو جوابدہ بھی ٹھہرایا جانا چاہیے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بدھ کی فل کورٹ میٹنگ کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ اس بات پر اتفاق رائے ہوا کہ چیف جسٹس وزیراعظم سے ملاقات کریں گے، لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ انکوائری کمیشن کی تشکیل پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔بیان کے مطابق وکلا نے اس طرز عمل پر اپنے گہرے عدم اطمینان اور مایوسی کا اظہار کیا جو کہ خود عدلیہ کی آزادی کے اصول کے خلاف ہے۔

بیان میں روشنی ڈالی گئی کہ انکوائری کمیشن کو تحقیقات کرنیکے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے مطلع کردہ ٹی او آرز کے مطابق کام کرنا ہوگا، مزید یہ کہ انکوائری کا ٹائم فریم اور رپورٹ کو پبلک کیا جائے گا یا نہیں یہ اختیار بھی حکومت کے پاس ہے۔کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کو دیے گئے اس طرح کے اختیارات کے پیش نظر، انکوائری کمیشن عدلیہ کی آزادی پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ضروری آزادی اور اختیارات سے محروم ہو جائے گا۔

اس کے مطابق، وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں کی جانے والی انکوائری ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہے جن کا تحفط یہ انکوائری کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ہم نوٹ کرتے ہیں کہ اس طرح کا کوئی بھی انکوائری کمیشن اور اس کی کارروائی مکمل طور پر ساکھ کو متاثر کرے گی۔بیان میں سپریم کورٹ پر زور دیا گیا کہ وہ گائیڈ لائنز مرتب کرے اور سپریم کورٹ تمام ہائی کورٹس کے ساتھ مل کر شفاف ادارہ جاتی میکانزم قائم کرے تاکہ عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کی کسی بھی کوشش کی اطلاع دی جا سکے اور اس سے مثر اور شفاف طریقے سے نمٹا جا سکے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی عدلیہ کی آزادی پر اعتراض نہ کرے۔

8 فروری کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اور دستخط کنندگان میں سے ایک بیرسٹر ملک نے کہا کہ تصدق جیلانی کے بیٹے ثاقب جیلانی عوامی بیان پر دستخط کرنے والے پہلے فرد تھے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر انہوںنے کہاکہ سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی کے بیٹے ثاقب جیلانی اور میں ایک ساتھ پلے بڑھے ہیں، اب ہم سیاست پر ایک دوسرے سے سخت اختلاف کرتے ہیں لیکن ہم قانونی اصلاحات اور عدلیہ کی حقیقی آزادی کو یقینی بنانے کی ضرورت پر متفق ہیں۔