اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کا خط، سپریم کورٹ میں سماعت شروع

DW ڈی ڈبلیو بدھ 3 اپریل 2024 14:00

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کا خط، سپریم کورٹ میں سماعت شروع

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اپریل 2024ء) عدالتی امور میں خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط پر از خود نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ میں بدھ تین اپریل کو سماعت شروع ہو گئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس جمال خان مندخیل جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔

’چیف جسٹس آف پاکستان نے سخت موقف نہیں اپنایا، تو عدلیہ کی آزادی ایک خواب بن جائے گی‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ "عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہوگا تو میں اور سارے ساتھی کھڑے ہوں گے، عدلیہ میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔

(جاری ہے)

" انہوں نے مزید کہا، "ایک بات واضح کرتا چلوں کہ عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

"

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے گزشتہ ہفتے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے ایک خط میں الزام عائد کیا تھا کہ عدالتی امور پر خفیہ ادارے مداخلت کر رہے ہیں، اس لیے کونسل اس معاملے کو دیکھے۔ ججز کے خط پر سپریم کورٹ نے دو فل کورٹ اجلاس منعقد کیے جن میں اس معاملے پر غور کیا گیا، بعد میں چیف جسٹس پاکستان نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔

اس ملاقات کے بعد 30 مارچ کو ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دے دی گئی تھی، اور جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔

چھ ججوں کا خط: سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ نامزد

تاہم بعد میں جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی جس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کے خط کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سات رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا تھا۔

اسلام آباد کی وکلا ء تنظیموں نے عدلیہ میں مداخلت کی شدید مذمت کی اور اس معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان سے نہ صرف ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا بلکہ مداخلت کی تحقیقات کروا کر ملوث افراد کو قرار واقعی سزا کی بھی استدعا کی۔

سماعت پر بھی تنازع

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر خان نے ججوں کے خط پر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کو پہلے تو خوش آئند قرار دیا لیکن بعد ازاں اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ "سات نہیں بلکہ نو یا بارہ ججوں کو کیس سننا چاہیے کیوں کہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے۔

" انہوں نے مزید کہا کہ "پہلی سماعت چاہے سات جج کریں لیکن جب کیس میرٹ کی طرف جائے تو فل کورٹ کو اسے سننا چاہیے۔"

اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ: کیا اسٹیبلشمنٹ کے لیے جھٹکا ہے؟

دوسری جانب وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے بیرسٹر گوہر کے بیان کو "سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کو سیاست کی نذر کرنے کی مذموم کوشش "قرار دیتے ہوئے کہا کہ "بیرسٹر گوہر خود وکیل ہیں، انہیں علم ہونا چاہیے کہ 184 (3) کے تحت بینچ کی تشکیل کی گئی ہے۔

"

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کو مشکوک خطوط موصول

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں اور دوسرے سات ججز کو پاوڈر والے مشکوک خطوط موصول ہوئے ہیں۔ یہ پاوڈر، انتھراکس ہوسکتا ہے۔

اس حوالے سے منگل کے روز دہشت گردی کے دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ "چار عدد لفافے جو کھلے ہوئے تھے ان پر سفید پاؤڈر کی آمیزش پائی گئی۔

لفافوں کے اوپر تحریک ناموس پاکستان کا حوالہ دے کر جسٹس سسٹم پر تنقید کی گئی ہے۔" ایف آئی آر کے مطابق ریشم نامی کسی خاتون نے ججز کو یہ خصوط ارسال کیے ہیں تاہم خط بھیجنے والی خاتون کا پتا درج نہیں تھا۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ: آئین کی برتری یا پارلیمنٹ پر قدغن

دھمکی آمیز خطوط موصول ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی پولیس کو طلب کر لیا، جس کے بعد اسلام آباد پولیس کی ماہرین کی ٹیم اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئی۔

ج ا/ ص ز (خبر رساں ادارے)