سپریم کورٹ ، اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر از خود نوٹس کیس میں تحریری معروضات طلب ، سماعت ملتوی،عدالت کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، چیف جسٹس

بدھ 3 اپریل 2024 16:20

سپریم کورٹ ، اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر از خود نوٹس کیس میں ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 اپریل2024ء) سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر از خود نوٹس کیس میں تحریری معروضات طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے 7 رکنی لارجر بنچ نے بدھ کو یہاں ازخود نوٹس کیس پر سماعت کی ۔

سماعت کے موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدلیہ کی آزادی پر زیرو ٹالرینس ہے، عدالت کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، آئین نے ہائی کورٹ کو توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار دیا ہے، جس عدالت کی توہین ہو رہی ہو، کارروائی بھی وہی کر سکتی ہے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے آئندہ سماعت پر ممکنہ فل کورٹ کی تشکیل کا عندیہ بھی دیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے دوران ایڈووکیٹ حامد خان سے سوال کیا کہ اگر آپ نے کوئی درخواست دائر کی ہے تو کمیٹی کو بتائیں۔ حامد خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ہم نے لاہور ہائی کورٹ بار کی طرف سے کل ایک پٹیشن دائر کی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اب تین رکنی کمیٹی کیسز کا فیصلہ کرتی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت کو روسٹرم پر بلایا جبکہ اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے خط موصول ہونے کے بعد کے اقدامات کی تفصیلات عدالت میں پڑھ کر سنائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی پر زیرو ٹالرنس ہے، عدالت کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر عدلیہ پر حملہ ہو گا تو میرے سارے ساتھی میرے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے وزیر اعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات کا پس منظر بتایا۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم عدلیہ کے کام میں مداخلت پسند نہیں کرتے،ہم ایڈمنسٹریٹولی کام کر رہے ہیں۔

ایگزیکٹو سے چھپ کر گھر میں میٹنگ نہیں کی اور نہ ہی چیمبر میں میٹنگ کی ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہم نے ایڈمنسٹریٹو حیثیت میں میٹنگ کی ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےکہا کہ کمیشن میں ہم نے ایسے نام تجویز کئے جن پر کم سے کم انگلی اٹھائی جا سکے۔ سوشل میڈیا پر اس بارے میں عجیب عجیب باتیں ہوئیں،مجھے بڑی شرمندگی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ کیا کسی مہذب معاشرہ میں ایسی باتیں ہوتی ہیں؟ سمجھ نہیں آ رہا ہم کس طرف جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر آپ کو کوئی اختلاف ہے تو اپنی باڈیز کو لکھ سکتے تھے،تصدق جیلانی شریف آدمی ہیں وہ تو جواب نہیں دیں گے، انہوں نے معذرت کر لی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسے ذاتی حملے ہوں اور ایسا ماحول بنایا دیا جائے تو کون شریف آدمی ایسی قومی خدمت کرے گا؟۔ سوشل میڈیا سے عجیب عجیب باتیں سابق چیف جسٹس کے بارے میں شروع کر دی گئیں، مجھے شرمندگی ہو رہی تھی کہ ایک شریف آدمی جسے ہم نے کمیشن کے لئے نامزد کیا تھا اس پر اس قسم کے حملے شروع ہو گئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں، میں نے ہر موقع پر مشاورت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم ایڈمنسٹریٹر ہیڈ بھی ہیں اور ایک حد تک مقننہ کے بھی ہیڈ ہوتے ہیں، جب سے چیف جسٹس بنا ہوں یہی کہتا ہوں کہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں ہمارے پاس کمیشن بنانے کا اختیار نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ قانون انکوائری کمیشن میں حکومت کو مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔

آج بھی حکومت کی پوزیشن وہی ہے۔ سپریم کورٹ کو ہر تعاون و معاونت فراہم کریں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک طرف عدلیہ کی آزادی ہے اور دوسری جانب ایگزیکٹو کی ساکھ خطرے میں ہے۔ انہوں نےکہا کہ یقین دلاتا ہوں کہ وفاقی حکومت کوئی ایسا عمل نہیں کرے گی جس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو، عدلیہ کی آزادی ریاست اور شہریوں کے درمیان سماجی معاہدہ ہے، حکومت عدلیہ کی آزادی کے لئے ہر ممکن معاونت فراہم کرے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہائی کورٹ کے ججز کا خط سپریم جوڈیشل کونسل کے نام ہے اور اس کے دیگر ممبرز بھی ہیں۔ ہم ججز کے خط کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ اس خط کے کئی پہلو ہیں۔ خط میں سپریم جوڈیشل کونسل کا ذکر ہے اور اس کا اختیار واضح ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مشہور زمانہ کیس جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا تھا، جس پر سپریم کورٹ نے حال ہی میں فیصلہ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ججز کو یقین ہونا چاہئے کہ ان کو کوئی خطرہ نہیں ہے، ایسا نہیں کہ اگر کوئی شکایت ہو تو وہ ججز کے گلے پڑ جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دو چیزیں ہیں، انکوائری اور حقائق سامنے لانا، یہ دو کام کون کرے؟۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ تحقیقات وہ کرے جو معاملےکی نزاکت کو سمجھتا ہو، اب معاملہ کی تحقیقات کون کرے یہ سب سے بڑا سوال ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز نے مزید کہا کہ کسی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لئے نہ سپریم کورٹ کی اجازت چاہئے اور نہ ہی جوڈیشل کونسل کی۔ توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار آئین پاکستان نے دیا ہے۔ جس جج سے متعلق معاملہ ہو وہ خود توہین عدالت کی کارروائی کر سکتا ہے۔ دوسری عدالت کسی عدالت کی توہین عدالت کے اختیار کا استعمال نہیں کر سکتی۔

اگر سول جج کی توہین ہو رہی ہے تو اس کا اپنا اختیار ہے اور اگر ہائی کورٹ کے جج کی توہین ہے تو اس کا اپنا اختیار ہے۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ہمارا کام نہیں ہے کہ کسی کی بے عزتی کریں ،یہ نظام تب چلے گا جب ہر کوئی اپنا کام کرے گا۔ ہائی کورٹ کے ججز کی میٹنگ کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ اس وقت کے چیف جسٹس نے مجھے یا سردار طارق کو اس میٹنگ میں نہیں بلایا اور نہ ہی مجھ سے اس وقت یا بعد میں کوئی مشاورت کی گئی۔

ہائی کورٹ کے ججز مجھ سے ملنے آئے لیکن میرے پاس اختیار نہیں تھا کہ میں کچھ کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جب سے میں چیف جسٹس بنا ہوں کوئی نہیں کہہ سکتا میرے کام میں مداخلت ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا وکیل میرے پاس کیوں آ رہے ہیں؟،اپنے متعلقہ فورم پر جائیں، 300 وکلاء کا بغیر دستخط والا خط چلایا گیا، اس طرح تو کسی کا نام بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ججز کے خط میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کے ادارہ کے جواب کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے زیادہ ادارے کی جانب سے فوری رسپانس کیا دیا جا سکتا ہے کہ خط ملنے کے بعد فوری طور پر وزیر اعظم سے ملاقات کی۔ فل کورٹ کے دو اجلاس ہوئے۔ عدالت میں ہم وزیر اعظم کو نہیں بلا سکتے کیونکہ ان کو آئین میں استثنیٰ حاصل ہے۔

اگر ہم نوٹس دیں گے تو سیکرٹری آ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے وزیر اعظم سے ملاقات میں واضح پیغام دیا کہ عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں ہو گا، ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم کسی کی عزت اچھا لیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف پارلیمان ہے، دوسری طرف صدر اور تیسری طرف حکومت ہے، ہم سب کا احترام کرتے ہیں اور سب سے احترام کی توقع کرتے ہیں، غلط کام کریں گے تو ہم فوراً پکڑیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تو اپنا احتساب کر کے دکھا رہے ہیں۔ جس جج سے زیادتی ہوئی ہم نے اسے درست کرنے کی کوشش کی اور سابقہ کیسز میں جو غلطیاں ہوئیں ہم نے انہیں بھی تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے ججز کے ساتھ کھڑا ہوں اور اگر کسی جج پر کوئی چیز ثابت نہیں ہے تو میں اسے قابل احترام مانتا ہوں۔جسٹس سید منصور علی شاہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہم شتر مرغ کی طرح ریت میں گردن چھپا کر اس اہم معاملہ سے نہیں بچ سکتے، یہ سنجیدہ معاملہ ہمیں حل کرنا ہو گا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ججز بھی چاہتے ہیں کہ انکوائری ہو۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس وقت کے چیف جسٹس کے خلاف کچھ عرصہ قبل ایک ریفرنس آیا تھا اور یہ ریفرنس سپریم کورٹ سے خارج ہو گیا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم نے کہا کہ ان سے غلطی ہوئی تھی جو کرائی گئی تھی۔ کیا آپ نے معلوم کیا وہ غلطی کس نے کی تھی اور کیوں کی تھی؟۔

کیا وہ معاملہ اس عدالت میں مداخلت کا نہیں تھا؟۔ جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ ہر ہائی کورٹ کے پاس اپنے اختیارات ہیں وہ استعمال کریں۔ ہم ہائی کورٹس کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہ رہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دوران سماعت کہا کہ آج ہم 7 جج اس لئے بیٹھے ہیں کیونکہ اس وقت صرف سات ججز ہی اسلام آباد میں دستیاب تھے دیگر جج اسلام آباد میں نہیں تھے اس لئے فل کورٹ نہیں بیٹھا۔

انہوں نے کہا کہ کچھ ججز لاہور اور کچھ کراچی میں ہیں۔ ہو سکتا ہے آئندہ فل کورٹ بیٹھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم آگے بہتری کی طرف چلتے ہیں، آئین کا آرٹیکل 203 بہت اہمیت کا حامل ہے، آئین میں کسی عدالت کو دوسری پر برتری نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 6 ججز کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو کہا مگر انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ ہائی کورٹ کے پاس اپنے اختیارات ہیں۔

چیف جسٹس ہائیکورٹ کیوں استعمال نہیں کر رہے؟۔ ہم مداخلت نہیں کرنا چاہ رہے مگر ہم انہیں ان کے اختیارات سے آگاہ تو کر سکتے ہیں۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر از خود نوٹس کیس تحریری معروضات طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تاریخ کے حوالہ سے ججز کا شیڈول دیکھ کر 29 یا 30 اپریل کی تاریخ طے کریں گے۔