متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک میں طوفانی بارشوں سے ماحولیاتی سائنسدانوں میں نئی بحث چھڑگئی

”جیو انجینئرنگ“ ٹیکنالوجی کا ایک ایسا مجموعہ ہے جو ماحول پر مثبت اثرات مرتب کر سکتا ہے اور آب و ہوا کی تبدیلی کے کچھ اثرات کو جزوی طور پر ختم یا کم کرسکتا ہے اس کلاﺅڈسیڈنگ بھی شامل ہے. ماہرین

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 18 اپریل 2024 22:44

متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک میں طوفانی بارشوں سے ماحولیاتی ..
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 اپریل۔2024 ) حالیہ دنوں میں دبئی سمیت متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک کے متعدد چھوٹے بڑے شہروں میں ہونے والی طوفانی بارشوں سے ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے اور کہا جارہا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں ہونے والی حالیہ بارشوں میں ”جیو انجینیئرنگ“ کار فرمار ہے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے مطابق اب یہ واضح ہو رہا ہے کہ ہم آب و ہوا میں ہونے والی تبدیلی اور اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اس میں اہم ترین کاربن کے اخراج میں تیزی سے کمی نہیں کر سکیں گے، لیکن جو امر ضروری اور اہم ہے وہ یہ کہ ہم اپنے سیارے کو متبادل امور کی مدد سے زیادہ تیزی سے ٹھنڈا کرنے کے طریقے اپنا سکتے ہیں اور ایسا کرنے سے ہمیں فوسل فیول سے دور جانے کے لئے تھوڑا اور وقت مل سکتا ہے.

ایم آئی ٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں اقدامات کو اجتماعی طور پر’ ’جیو انجینئرنگ“ کے نام سے جانا جاتا ہے تاہم ہاورڈز سولر جیو انجینئرنگ ریسرچ پروگرام کے مطابق”جیو انجینئرنگ“ سے مراد اس جدید دور میں ٹیکنالوجی کا ایک ایسا مجموعہ ہے جو ماحول پر مثبت اثرات مرتب کر سکتا ہے اور آب و ہوا کی تبدیلی کے کچھ اثرات کو جزوی طور پر ختم یا کم کرسکتا ہے اس کلاﺅڈسیڈنگ بھی شامل ہے.

ماہرین کا کہنا ہے کہ جیو انجینئرنگ ماحول میں ایسی تبدیلیاں لانا کہ جس کی مدد سے موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات کو کم کیا جا سکے”جیو انجینئرنگ‘ ‘کے دو اقسام ہیںپہلی زمینی جیو انجینئرنگ اور دوسری سولر یا شمسی جیو انجینئرنگ، زمینی جیو انجینئرنگ میں زمین کی فضا یا ہوا میں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کو کم کرنے کے لیے درخت زیادہ سے زیادہ لگائے جاتے ہیں دوسری جانب سولر یا شمسی جیو انجینئرنگ میں ماہرین بادلوں کی چمک میں اضافہ کر دیتے ہیں کہ جس کی وجہ سے سورج کی روشنی ان سے ریفلیکٹ ہو جاتی ہے اور زمین اس کے مضر اثرات سے محفوظ رہتی ہے مصنوعی بارشوں کی ٹیکنالوجی بھی اسی شاخ سے تعلق رکھتی ہے.

ماہرین کے مطابق ”جیو انجینئرنگ “کی ان دونوں اقسام کی مدد سے ماحول کو نا صرف صحت مند بنایا جا سکتا ہے بلکہ گلوبل وارمنگ کے مضر اثرات کو کم کرتے ہوئے زمین کے بڑھتے درجہ حرارت کو کم کرنے میں کچھ وقت کے لیے مدد مل سکتی ہے تاہم بہت سے ماحولیاتی سائنسدانوں کا یہ اندازہ ہے کہ دنیا کے پاس کاربن اخراج میں کمی کے لیے چند دہائیاں ہی ہیں اور اگر ایسا نہ ہوا تو فضاءمیں اتنا کاربن ڈائی آکسائیڈ جمع ہو جائے گا کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ناگزیر ہو جائے گا.

میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے مطابق 1991 میں جب فلپائن میں ماﺅنٹ پیناٹوبو میں شدید دھماکے سے آتش فشاں پھٹنے کے بعد کئی ماہ تک دھوئیں اور راکھ کے بادل ان علاقوں پر چھائے رہے تھے اور فضا میں 20 ملین ٹن سلفر ڈائی آکسائیڈ پھیل گئی تھی اور اس کی وجہ سے کئی سال تک یہاں کا درجہ حرارت بڑھ نہیں پایا تھایہ سب تو قدرتی طور پر ہوا تھا مگر اس کے بعد سائنسدانوں کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی کہ اگر عارضی طور پر ایک خاص بلندی پر 50 میگا ٹن سلفر کا چھڑکاﺅکیا جائے تو اس طرح سے تقریباً دو سال تک زمین پر درجہ حرارت میں اضافہ نہیں ہوگا اور گلوبل وارمنگ کی بدولت ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کو کچھ عرصے کے لیے لگام ڈالی جا سکے گی اس وقت یہ بات آئی گئی ہو گئی اور اس پر مختلف سوال اٹھائے گئے.

اس کے بعد 2006 میں جیو انجینئرنگ کی بات ایک مرتبہ پھر ہوئی اور اس مرتبہ اس پر بات کی ایک ڈچ ماہر موسمیات اور ماحولیاتی کیمیا دان ”پال جوزف کرٹزن“ نے ان کے بات میں وزن اس وجہ سے بھی تھا کہ کرٹزن نے زمین کے گرد موجود اوزون لئیر میں ہونے والے سوراخ کے خطرات پر تحقیق کے لئے اپنا نوبل انعام جیتا تھا، اور سلفر ڈائی آکسائیڈ کے اثرات پر بات کی تھی اس بارے میں” بی بی سی“ سے بات کرتے ہوئے پاکستانی ماہرماحولیات داور بٹ کا کہنا تھا کہ یہاں ’کلائمٹ موڈیفیکیشن یعنی مصنوعی طریقے سے موسم میں تبدیلی کی کوشش کی وجہ سے غیرمعمولی بارشیشں ممکن ہیں انہوں نے کہا کہ عرب ممالک میں بارشیں زیادہ نہیں ہوتیں تو ایسے میں کلاﺅڈ سیڈنگ یا بادلوں پر نمک چھڑکنے کی تکنیک کا استعمال کیا جاتا ہے کلاﺅڈ سیڈنگ میں آپ بادلوں کو بارش برسانے کے قابل تو بنا سکتے ہیں مگر آپ کا کنٹرول اس بات پر نہیں ہوتا کہ وہ بادل 100 ملی میٹر بارش برسائیں گے یا 200 ملی میٹر کلاﺅڈ سیڈنگ ایک ایسا عمل ہوتا ہے جس میں بادلوں سے چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے تاکہ زیادہ بارش پیدا کی جا سکے اس عمل کے لیے ہوائی جہاز استعمال کرتے ہوئے سلور آئیوڈائیڈ جیسے چھوٹے ذرات بادلوں میں چھوڑے جاتے ہیں اور پھر پانی کے بخارات انہیں بارش میں بدل دیتے ہیں.

یہ تکنیک برسوں سے موجود ہے جس کا حالیہ عرصے میں متحدہ عرب امارات نے بھی استعمال کیا ہے ”بلومبرگ“ کی رپورٹس کے مطابق کلاﺅڈ سیڈنگ کے لیے ہوائی جہازوں کو اتوار اور سوموار کے دن استعمال کیا گیا تھا لیکن منگل کے دن ان کا استعمال نہیں ہوا جب سیلاب آیا جبکہ متحدہ عرب امارات کے حکام کا بھی موقف ہے کہ ”کلاﺅڈسیڈنگ “بالکل نہیں کی گئی لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے کسی بھی عمل کا طوفان پر بہت کم اثر پڑتا ہے اور اس نکتے پر مرکوز رہنا گمراہ کن ہو سکتا ہے عام طور پر کلاﺅڈ سیڈنگ کا استعمال اس وقت کیا جاتا ہے جب بارش کے لیے درکار مناسب ہوا، نمی اور گرد کی کمی ہو حال ہی میں پاکستان میں بھی متحدہ عرب امارات کی مدد سے گزشتہ سال دسمبر میں لاہور میں مصنوعی بارش کا ایک تجربہ کیا گیا تھا بھارت میں اس کا پہلا تجربہ 1952 میں کیا گیا تھا جبکہ 1960 کی دہائی کے دوران امریکی فوج نے ویتنام کے علاقوں میں فوجی سامان کی ترسیل روکنے کے لیے متنازع طور پر یہ تکنیک استعمال کی تھی چین، متحدہ عرب امارات اور بعض بھارتی ریاستیں قحط جیسی صورتوں میں بھی کلاﺅڈ سیڈنگ کی آزمائش کرتی ہیں.