ٹیرف لائنز کو ری سٹرکچر کیا جارہا ، مختلف سیکٹرز کے ٹیرف زیرو ریٹڈ کیے گئے ہیں،وفاقی سیکریٹری کامرس

اندازہ ہے اس وقت انڈسٹری کو زیادہ پیداواری لاگت، ان پٹ کاسٹ ،انرجی اور لیکوڈٹی سمیت بہت سے مسائل درپیش ہیں‘محمد صالح احمد جب تک مقامی انڈسٹری کے مسائل حل نہیں ہونگے تب تک برآمدات میں اضافہ ممکن نہیں‘صدر لاہور چیمبر کاشف انور

جمعہ 19 اپریل 2024 20:35

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 اپریل2024ء) فیڈرل سیکریٹری کامرس محمد صالح احمد فاروقی نے کہا ہے کہ تاجر برادری وزارت تجارت کا حصہ ہے اور لاہور چیمبر میں آنے سے سٹیک ہولڈرز سے براہ راست معلومات ملتی ہیں اور اعداد و شمار کا پتہ چلتا ہے، لاہور چیمبر کی تجاویز منسٹری آف کامرس کو مزید مضبوط کرتی ہیں، وزیراعظم نے انڈسٹری کو سہولیات دینے کی ہدایت کی ہے، اگلے چند روز میں وزیراعظم کی ہدایت پر تمام ادارے مل بیٹھ کر کاروباری برادری کے مسائل ڈسکس کریں گے، ہمیں اندازہ ہے کہ اس وقت انڈسٹری کو زیادہ پیداواری لاگت، ان پٹ کاسٹ ،انرجی اور لیکوڈٹی سمیت بہت سے مسائل درپیش ہیں۔

ان سب پر ریگولیٹری کا بوجھ مشکلات میں اضافہ کررہا ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور کے زیر صدارت لاہور چیمبر میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

سینئر نائب صدر ظفر محمود چودھری اور عدنان خالد بٹ نے بھی خطاب کیا۔ جائنٹ سیکریٹری منسٹری آف کامرس محمد اشفاق، ڈی جی ٹی ڈیپ ، سابق سینئر نائب صدور امجد علی جاوا، کاشف یونس مہر اور رحمن عزیز چن ، ای سی ممبران مجاہد مقصود بٹ اور شمیم اختر بھی اجلاس میں موجود تھے۔

فیڈرل سیکریٹری کامرس نے کہا کہ ٹیرف پالیسی بورڈ ایف بی آر سے منسٹری آف کامرس کو کچھ عرصہ قبل ہی دیا گیا ہے۔ کوشش ہے کہ ٹیرف میں گروتھ کو مدنظر رکھا جائے اور یہی اگلا لائحہ عمل بھی ہے۔ اس وقت کوشش کی جارہی ہے کہ ٹیرف کو مزید ریشنلائز کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ 2019میں جو نیشنل ٹیرف پالیسی منظور کی گئی تھی اس میں 7500سے زائد ٹیرف لائنز ہیں جن میں سے 6500کی ڈیوٹی ٹیرف کا سٹرکچر تبدیل کیا گیا ہے جو کہ 85فیصد سے زائد بنتا ہے۔

اس طرح 90ارب روپے سے زائد فائدہ ٹرانسفر کیا گیا۔ اس وقت تک 2198ٹیرف لائنز کو زیرو ریٹڈ کیا گیا ہے جو ملک میں نہیں بنتے۔ فارماسیوٹیکل کی APIsکو زیرو ریٹڈ کیا گیا ہے۔ مین میڈ فائبر کے ٹیرف کو کم کیا گیا ہے ۔آئرن سٹیل و دیگر شعبوں میں بھی ٹیرف بہتر کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں بھی کاسکیڈنگ پرنسپل کی خلاف ورزی ہورہی تھی وہاں درستگی کی گئی ہے۔

یہ ایک مسلسل پراسیس ہے ۔ پوری کوشش کررہے ہیں کہ مکمل ریلیف دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ انڈسٹری اور ایگریکلچر کو فروغ دیے بغیر آبادی اور یوتھ کی ضروریات پوری نہیں کرسکتے۔ ابھی تک ہماری کوئی انڈسٹریل پالیسی نہیں ہے ۔ اس سلسلے انڈسٹری ڈویژن کی جانب سے کام جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ علاقائی روابط ، نئے معاہدوں، نئی مارکیٹوں اور نئی مصنوعات پر بھی کام جاری ہے۔

ہماری برآمدات چند مارکیٹوں اور پروڈکٹس تک محدود ہیں جن میں امریکہ، یورپ، یوکے جیسے ممالک اور ٹیکسٹائل مصنوعات شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چاول ، فروٹس، دودھ ،بیف، خشک مرچ، ڈیری پروڈکٹس کی برآمدات میں اضافے کا سکوپ ہے۔ یورپ کی 70فیصد مارکیٹ پاکستانی باسمتی نے حاصل کرلی ہے۔ دیگر پروڈکٹس کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ تجارت کو فروغ دینے کے لیے ازبکستان سے ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ اور پریفرنشل ٹریڈ ایگریمنٹ سائن ہوچکے ہیں، تاجکستان کے ساتھ بھی بات جاری ہے جبکہ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ 2024میں ہی ایگریمنٹ سائن کرلیے جائیں گے۔

ایران، افغانستان اور روس کے ساتھ بینکنگ چینلز کے مسائل تھے۔ روس اور ایران کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کے معاہدے ہوگئے ہیں جبکہ افغانستان کے ساتھ معاہدے کے لیے کام جاری ہے۔ اس کے علاوہ جی سی سی ممالک کے ساتھ ایف ٹی اے پر بات چیت مکمل ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خنجراب کے راستے کو بارہ ماہ کھولنے کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ پاکستان چائنا جائنٹ کمیٹی میٹنگ جلد منعقد ہوگی۔

افغانستان کے ساتھ ہمارا ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ ہے لیکن چین کے ذریعے بھی سنٹرل ایشیامیں چیزیں جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پورٹس کپیسٹی سے کم کام کررہی ہیں۔ انفراسٹرکچر کو استعمال کرنا چاہیے۔ ٹی ڈیپ کے بجٹ کو بڑھایا گیا ہے۔ لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور نے کہا کہ جب تک مقامی انڈسٹری کے مسائل حل نہیں ہونگے تب تک برآمدات میں اضافہ ممکن نہیں۔

مقامی صنعتوں کو روپے کی قدر میں کمی، افراط زر، زیادہ مارک اپ ، بجلی ،گیس اور فیول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، ایم ڈی آئی چارجز، ایکسل لوڈ کی حد میں کمی اور کارگو ڈلیوری چارجز میں اضافے سمیت دیگر کئی مسائل کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایس آر او 457(تاجردوست سکیم)، ایس آر او 350اور ایس آر او 1842نے تاجروں کے مسائل میں مزید اضافہ کیا ہے، یہ ٹیکس دہندگان پر بوجھ ہے جو ٹیکس نیٹ میں ہونے کے باوجود آڈٹس، جرمانوں اور سرچارجز وغیرہ سے پریشان ہیں۔

لاہور چیمبر کے صدر نے کہا کہ پاکستان میں امپورٹ ٹیرف کو ریونیو کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے انڈسٹری مشکل میں ہے ۔ کئی طرح کی ڈیوٹیز کی وجہ سے ہماری انڈسٹری کی ایکسپورٹ کرنے کی صلاحتیں بہت زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے ٹیرف سٹرکچر میں ایسی تبدیلیاں متعارف کروائی جائیں جس سے مقامی صنعت کو فروغ ملے جبکہ اسمگلنگ کی روک تھام ہو۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ ایسے خام مال جو مقامی طور پر تیار نہیں ہوتے ان پر کسٹمز ڈیوٹی، ریگولیٹری ڈیوٹی اور ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی فوری طور پر ختم کردی جائے کیونکہ اس کے بغیر انڈسٹری کو چلانا ناممکن ہے۔انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور ہر سال سیلاب کی وجہ سے معیشت متاثر ہوتی ہے۔ لاہور چیمبر کے صدر نے کہا کہ انڈسٹریل مشینری پر بھی ڈیوٹی کم کرنی چاہیے تاکہ صنعتوں کو ٹیکنالوجی کے حصول میں آسانی ہو۔

بہت سے ایس ایم ایز کمرشل امپورٹرز سے خام مال خریدتے ہیں جن پر کسٹمز ڈیوٹی کا ریٹ بہت زیا دہ ہے۔ کمرشل امپورٹرز اور مینوفیکچررز کے لیے کسٹمز ڈیوٹی کے ریٹ میں فرق نہیں ہونا چاہئے کیونکہ کمرشل امپورٹرز بھی انڈسٹری کو بلاواسطہ سپورٹ کررہے ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بہت سی ڈیوٹی سلیبس کی وجہ سے ہمارا ٹیرف سٹرکچر بہت پیچیدہ ہے جسے آسان بنانے کی ضرورت ہے۔

نیشنل ٹیرف پالیسی میںCascadingکے اصول کو مناسب طریقے سے شامل کیا جانا چاہیے جس کے تحت ہر انڈسٹری کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا اور ہر ایک کے لیے الگ ٹیرف سلیب مقرر کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی میٹریل اور خام مال کے لیے زیروفیصد، انٹرمیڈیٹ گڈز کے لیے پانچ تا دس فیصد، سیمی فنشڈ گڈز کے لیے پندرہ فیصد جبکہ تیار اور کنزیومر گڈز کے لیے بیس تا پچیس فیصد کی سٹینڈرائزڈ ٹیرف سلیبس مقرر کی جائیں۔

کاشف انور نے کہا کہ حالات کے پیش نظر انڈسٹریلائزیشن اور درآمدات کے متبادل پر توجہ دینا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ درآمدات کم کرنا پہلی اور برآمدات میں اضافہ کرنا دوسری ترجیح ہونی چاہیے۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ملک میں لوکلائزیشن اور ویلیوایڈیشن کو فروغ دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وزارت تجارت درآمدات کے متبادل کے لیے پالیسی مرتب کرے تاکہ مینوفیکچرنگ میں اضافہ کیا جاسکے۔

انہوں نے افریقہ، وسطی ایشیا اور آسیان سمیت دیگر منڈیوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ برآمدات کا 68%حصہ ٹیکسٹائل، چاول اور لیدر جیسے چند شعبوں سے آرہا ہے جبکہ ہم حلال فوڈ، فارماسیوٹیکل، انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ انڈسٹری وغیرہ جیسے پوٹینشل سیکٹرز کو فروغ دے کرملکی برآمدات کوبڑھا سکتے ہیں۔ لاہور چیمبر کے صدر نے کہا کہ دیگر ممالک کے ساتھ ترجیحی تجارت اور آزادانہ تجارت کے معاہدوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔

جن ممالک کے ساتھ ان معاہدوں کے باوجود تجارت میں خسارے کا سامنا ہے ان پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ چین کے ساتھ ایف ٹی اے کے باوجود تجارتی خسارہ 14ارب ڈالر جبکہ ملائشیا کے ساتھ 700ملین ڈالر ہے لہذا معاہدوں کا نئے سرے سے جائزہ لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایکسپورٹرز کو پچھلے سال جی سی سی کے ساتھ ہونے والے آزادانہ تجارت کے معاہدے اور ایس آر او 642کے ذریعے ایران، افغانستان اور روس کے ساتھ بارٹر ٹریڈ مکینزم کے بارے میں آگاہی دی جائے۔

انہوں نے ریجنل ٹریڈ بڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ لاہور چیمبر کے صدر نے کہا کہ ٹی ڈیپ تمام انٹرنیشنل تجارتی میلوں میں زیادہ سے زیادہ سٹالز بک کرے تاکہ بڑے ، چھوٹے ایکسپورٹرز ، خواتین اور ایس ایم ایز بھی ان میں حصہ لے سکیں۔ انہوں نے کہا کہ وزارت کامرس کے ایس آر او 760کے تحت جیولرز اپنی برآمدات کے پچاس فیصد مساوی سونا اور پچاس فیصد فارن ایکسچینج لاسکتے ہیں۔

جیولرز کا مطالبہ ہے کہ ان کو سو فیصد سونا لانے کی اجازت ہونی چاہیے۔ پرنٹنگ اور پیکجنگ سیکٹرز کا موقف ہے کہ برآمدات سہولیاتی سکیم کے تحت وہ خام مال ڈیوٹی فری امپورٹ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جو پاکستان میں بنتے ہیں۔ کاشف انور نے کہا کہ فوڈ سپلیمنٹس پر ڈیوٹی ، ٹیکسز پچھتر فیصد تک ہیں حالانکہ یہ غذائی اور صحت عامہ کی ضروریات پوری کرتے ہیں، ان کو چیپٹر 99میں شامل کرتے ہوئے ڈیوٹی فری کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ سٹیل سیکٹر کا خام مال وائر راڈ پاکستان میں نہیں بنتا لیکن اس پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی عائد ہے جو ختم ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کارپٹ انڈسٹری کا یہ دیرینہ مطالبہ ہے کہ ہر قسم کے قالینوں کو موجودہ اور نئے ہونے والے آزادانہ تجارت اور ترجیحی تجارت کے معاہدوں میں شامل کیا جائے اور بین الاقومی میلوں میں شرکت کے لیے سپورٹ کیا جائے۔ کارپٹ انڈسٹری پر ایکسپورٹ پراسیڈنگز میں تاخیر پر تین سے نو فیصد تک جو پینلٹیز لگائی گئی ہیں وہ فوری ختم کی جائیں۔ انہوں لاہور چیمبر میں وزارت تجارت کا ہیلپ ڈیسک قائم کرنے کی تجویز بھی پیش کی۔