بھارتی ووٹروں کی انگلیوں پر انمٹ 'پاکستانی' روشنائی

DW ڈی ڈبلیو پیر 22 اپریل 2024 10:20

بھارتی ووٹروں کی انگلیوں پر انمٹ 'پاکستانی' روشنائی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 اپریل 2024ء) بھارت کے بابائے قوم مہاتما گاندھی کے پوتے، سابق گورنر گوپال کرشن گاندھی نے اپنے ایک مضمون میں اس انمٹ روشنائی کی تاریخ پر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ سن 1951میں پہلے عام انتخابات کے بعد سے پچھلے ستر سال سے زائد عرصے کے دوران بھارت میں، بلدیاتی سطح سے لے کر قومی سطح تک کے، ہونے والے انتخابات میں یوں تو بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے لیکن ایک چیز نہیں بدلی ہے اور وہ ہے ووٹ دینے والوں کی انگلی پر لگائی جانے والی انمٹ روشنائی، جس کے ایجاد کا سہرا ایک پاکستانی سائنس داں ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے سر جاتا ہے۔

بھارت کے الیکشن اس مرتبہ زیادہ اہم کیوں؟

پاکستانی انتخابات کا پھیکا پن اور بھارت

گوپال کرشن گاندھی نے تجویز دی ہے کہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے اعزاز میں اس روشنائی کا نام 'صدیقی اِنک' کر دیا جائے، تا کہ اس کے موجد کا نام اس کے ساتھ منسلک رہے۔

(جاری ہے)

لیکن بھارت اور پاکستان کے درمیان موجودہ تلخ رشتوں کے مدنظر ایسا شاید ہی ممکن ہوسکے۔

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کون تھے؟

تقسیم ملک کے بعد بھارت میں سن 1951میں پہلے قومی انتخابات کا اعلان ہوا تویہ سوال درپیش تھا کہ الیکشن میں بوگس ووٹوں کی حوصلہ شکنی کرنے اور ایک سے زائد بار ووٹ ڈالنے سے روکنے کے لیے کیا طریقہ استعمال کیا جائے۔ اس کے لیے ووٹ دینے سے پہلے ووٹر کی انگلی پر نشان لگانے کا طریقہ طے کیا گیا۔

'بھارتی انتخابات پر لاہور کی نظر ہے'، بی جے پی رہنما

بھارت میں کوئی الیکشن جناح کے بغیرمکمل کیوں نہیں ہوتا ہے؟

اس کام کی ذمہ داری بھارت میں سائنسی ترقیات کے ادارے کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (سی ایس آئی آر) کے ڈائریکٹر معروف سائنس داں شانتی سروپ بھٹناگر کو دی گئی۔

تاہم انہوں نے یہ کام اس وقت سی ایس آئی آر میں کیمیائی سائنس داں کے طورپر کام کرنے والے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کو سونپ دیا۔

پاکستان کی نیشنل سائنس کونسل کے بانی چیئرمین سلیم الزماں صدیقی 19 اکتوبر 1897 کو اترپردیش کے ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے بڑے بھائی چوہدری خلیق الزماں قیام پاکستان کی تحریک کے مرکزی رہنماوں میں سے ایک تھے۔

سلیم الزماں صدیقی نے علی گڑھ کے مسلم اینگلو اورینٹل کالج (جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنا) سے ابتدائی تعلیم مکمل کی۔ انہوں نے ممبئی سے طب کی تعلیم حاصل کی اور اس کی اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے۔ تاہم انہوں نے اپنے بڑے بھائی چوہدری خلیق الزماں کے اصرار پر کیمسٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جرمنی کے فرینکفرٹ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔

انہوں نے جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ سینکڑوں تحقیقی مقالے لکھے اور بھارت کی روایتی ادویات پر بھی تحقیق کی۔ سن 1940 میں سلیم الزماں صدیقی سی ایس آئی آر سے منسلک ہوگئے۔

بھارت سے پاکستان ہجرت

گوپال کرشن گاندھی نے لکھا ہے کہ ایک نئے ملک پاکستان کے قیام کے صرف چار سال ہوئے تھے اور وہ اپنی سیاسی اور ادارہ جاتی نظام کی تعمیر کر رہا تھا۔

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان نے اپنے بھارتی ہم منصب جواہر لعل نہرو کو خط لکھا کہ وہ ڈاکٹر سلیم الزماں کو سائنسی تحقیقات کے فروغ کے لیے پاکستان جانے کی اجازت دیں۔ بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ لیاقت علی خان نے براہ راست ڈاکٹر سلیم الزماں کو پاکستان آنے کی دعوت دی تھی جس کے بعد انہوں نے نہرو کے سامنے یہ معاملہ رکھا تھا۔

گوپال کرشن گاندھی لکھتے ہیں کہ نہرو نے ڈاکٹر سلیم الزماں کو پاکستان جانے کی اجازت دے دی، جہاں انہوں نے پاکستان کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر)، پاکستان سائنس کونسل کی بنیاد رکھی۔ وہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔

وہ برطانیہ میں سائنس دانوں کی رائل سوسائٹی کے فیلو بھی رہے۔ مصوری سے بھی انہیں کافی دلچسپی تھی اور ان کے فن پاروں کی نمائشیں بھی منعقد ہوچکی ہیں۔

'انمٹ روشنائی' کیسے تیار ہوئی؟

بتایا جاتا ہے کہ شانتی سروپ بھٹناگر نے سلور کلورائیڈ پر مشتمل روشنائی کا ایک فارمولا ڈاکٹر سلیم الزماں کو بھیجا، جو الیکشن میں استعمال کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ لیکن اس روشنائی کا نشان بہت جلد مٹ جاتا تھا۔ بھٹناگر چاہتے تھے کہ یہ نشان زیادہ دیر تک برقرار رہے۔ سلیم الزماں نے بھٹناگر کے بھیجے گئے فارمولے میں سلور برومائیڈ شامل کرکے ایک نیا فارمولہ تیار کیا اور یہ نمونہ انہیں واپس بھجوا دیا۔

اس کے بعد اس نمونے کو بھارتی الیکشن کمیشن کے عہدے داروں کو بھجوا یا گیا۔ جب اس روشنائی کی آزمائش کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ فوری انمٹ نشان چھوڑتی ہے جسے کافی کوشش کے بعد بھی کئی دن تک مٹایا نہیں جاسکتا ہے۔

گوپال کرشن گاندھی اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ "میری عمر اس وقت چھ سال رہی ہوگی، جب میرے والد پہلی مرتبہ ووٹ ڈال کر آئے توان کی انگلی پر لگی روشنائی دیکھ کر مجھے کافی حیرت ہوئی تھی۔

کچھ لوگوں نے اس وقت کہا کہ یہ روشنائی مٹ جائے گی۔ انہوں نے اس کے لیے کئی ترکیبیں بھی آزمائیں، لیکن ناکام رہے۔"

ڈاکٹر سلیم الزماں کے فارمولے اور اس پر مزید تحقیق کے بعد وجود میں آنے والی انمٹ سیاہی کو انتخابات کی شفافیت کے لیے اتنا موثر سمجھا جاتا ہے کہ بھارت کے ساتھ ہی پاکستان اور کئی ممالک میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔

بھارت میں یہ سیاہی تیار کرنے والی کمپنی اسے تیس ممالک کو بر آمد کرتی ہے۔

بھارتی الیکشن کمیشن کے مطابق سن 1951 کے پہلے عام انتخابات میں اس روشنائی کی تقریباً چار لاکھ چھوٹی شیشیاں سپلائی کی گئی تھیں، جن پر دو لاکھ 27 ہزار 460 روپے کی لاگت آئی تھی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق حالیہ انتخابات کے لیے ساڑھے چھبیس لاکھ چھوٹی شیشیوں کے آرڈر دیے گئے ہیں جن پر تقریباً 58 کروڑ روپے لاگت آئے گی۔