Live Updates

آئین خود اپنا تحفظ مانگ رہا ہے، بلوچستان میں الیکشن نہیں آکشن ہوا ہے : عبدالمالک بلوچ

ةجب تک عوامی نمائندے پارلیمان میں نہیں آئینگے جمہوریت نہیں آئیگی: سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان

اتوار 28 اپریل 2024 20:20

~!لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 28 اپریل2024ء) دو روزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس اختتام پذیر ہو گئی، صوبوں کی خودمختاری کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ اس وقت آئین خود اپنا تحفظ مانگ رہا ہے، بلوچستان میں الیکشن نہیں آکشن ہوا ہے جس نے مال لگایا وہ جیت گیا، جب تک عوامی نمائندے پارلیمان میں نہیں آئیں گے جمہوریت نہیں آئیگی، جب بھی الیکشن ہوتا ہے بلوچستان میں ٹرانسفر پوسٹنگ شروع ہوجاتی ہے، یہ بھی ایک المیہ ہے کہ اس وقت بلوچستان کی پارلیمنٹ میں وہی لوگ ہیں جو پہلے ق لیگ،پیپلز پارٹی، ن لیگ، باپ پارٹی وغیرہ میں تھے، وفاقیت کے اصولوں کی عملداری نہیں ہورہی ہے، اس وقت پاکستان میں ایک ہی ادارہ کام کررہا ہے اور وہ اسٹیبلشمنٹ، پارلیمنٹ اور عدلیہ میں کوئی روح نہیں ہے، طاقت اور اقتدار بے چہرہ لوگوں کے پاس ہے۔

(جاری ہے)

انھوں نے کہا کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں میں موروثیت ہے جس نے ریاستی اداروں کو کمزور کردیا ہے، بلوچستان کی محض 17 سیٹیں ہے وہ بھی کسی کی مرضی سے طے ہوتی ہیں، عوام کی اتنی بڑی تعداد کو قانون کے بغیر نہیں ہینڈل کیا جاسکتا ہے، نظام کی درستگی بارتے سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بدلنا ہے تو رندوں سے کہو اپنا چلن بدلیں، فقط ساقی بدل دینے سے میخانہ نہ بدلے گا، راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے، فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا۔

سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ 18 ویں ترمیم سیاستدانوں نے منظور کی لیکن قمر باجوہ نے کہا کہ میں اسے نہیں مانتا، جنرلوں نے کبھی آئین کو نہیں مانا،ملک پرجس ادارے کا قبضہ ہے اسی کا غلبہ بھی ہے،وہ اپنی بزنس ایمپائر بنانے کیساتھ ساتھ ریاستی وسائل پر بھی قابض ہے، 73 کے آئین کی بناد پر بننے والا سوشل کنٹریکٹ ختم ہوچکا ہے ان نیا سوشل کنٹریکٹنتحریر کرنا ہوگا، ہم الگ نہیں ہونا چاہتے لیکن آخری دفعہ کہہ رہے ہیں کہ ہم وہ فارمولہ لے آئیں گے جو آپ نے بنگال کیلئے بنایا تھا، سینٹ کو بااختیار بنانا ہوگا تاکہ کوئی ٹھوس کام کیا جاسکے، بلدیاتی انتخابات اسلئے نہیں کروائے جاتے کہ حکومت کی لائف لائین فنڈز نکل جائیں گے، جب جب فوجی حکومتیں آئیں انھوں نے بلدیاتی ادارے مضبوط کرکے حکومت کے سامنے کھڑے کر دیئے، اقتدار میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی وضاحت انھوں نے اس شعر میں کی… ’’گر روشنی یہی ہے تو اے بدنصیب شہر،اب تیرگی ہی تیرا مقدر لگے مجھے‘‘۔

سابق مئیر نارووال احمد اقبال نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد بھی صوبوں کو وہ نہ مل سکا جو ملنا چاہئے تھا، 30 پہلے کی نسبت آج بھی دیہات میں گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ، نکاسی آب کا کوئی نظام نہیں ہے، نئی آئینی ترمیم کر کے مقررہ مدت میں بلدیاتی انتخابات کروانا لازم قرار دیا جائے ورنہ جمہوریت اور آئین کا کوئی مستقبل نہیں ہے، انتخابات میں شمولیت، خواتین ، اقلیتوں اور ٹرانس جینڈرز کو درپیش مسائل کے حوالے سے منعقدہ سیشن میں سٹیٹ منسٹرحکومت بلوچستان راحیلہ درانی نے کہا سیاست میں آنا عورتوں کیلئے پھولوں کی سیج نہیں ہے کیونکہ انھیں اتنی آسانی سے قبول نہیں کیا جاتا ہے، 2015 میں سپیکر بنی تو 10 ماہ تک نوٹیفکیشن ہی جاری نہ کیا گیا، الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتی ہوں کہ انتخابات میںخواتین کی شرکت کے حوالے سے معلومات ویب سائیٹ پر اپ لوڈ کی جائیں،خواتین نصف سے زیادہ ہیں اس کے باوجود کب تک خواتین کوٹہ سسٹم پرپلتی رہیں گی، خواتین کی مخصوص نشستوں پر بھی سوال اٹھتا ہے۔

سابقہ رکن اسمبلی خیبر پختونخواثمر بلور نے کہا اپنی آواز کی طاقت سے ہی عورت مضبوط بنے گی، ہمارے تین وزرائے اعظم نے ہئیر ٹرانسپلاٹ کروائے ایک تو بوٹوکس انجکشن بھی لگواتے رہے لیکن تنقید صرف عورتوں کے میک اپ ، فیشن اور لباس پر ہوتی ہے، مریم نواز کو بھی غیر ضروری طور پر ہدف تنقید بنایا گیا حالانکہ اگر بات کرنی ہے تو انکے کاموں پر کریں، آج وقت آگیا ہے کہ معاشرے بدلے اور عورت کی سیاست میں شمولیت کو قبول کرے۔

ڈاکٹر سویرا پرکاش نے کہا کہ پاکستان آگے بڑھ رہا ہے یہ جدوجہد جاری رہنی چاہئے، پیپلز پارٹی قیادت کی شکر گزار ہوں کہ اس نے بونیر سے اقلیتی برادری سے تعلق ہونے کے باوجود جنرل نشست کیلئے ٹکٹ جاری کی، سوشل میڈیا ہو یا کوئی اور جگہ عورتوں سے زیادہ مردوں نے پذیرائی دی، انتخابی مہم کے دوران گاڑی پر گولیاں چلائی گئیں، اپنوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، شکست کا پتہ تھا اس کے باوجود الیکشن لڑا، اس پر میزبان نے اگرچہ آپ ہار گئیں لیکن آپ نے دل جیت لئے۔

سابق رکن اسمبلی مہناز اکبر عزیز نے کہا الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتی ہوں کہ ویب سائیٹ پر الیکشن میں خواتین کے کردار بارے ڈیٹا اپ لوڈ کرے، ہمارے معاشرے میں ابھی بھی مردانہ سوچ کا غلبہ ہے، سیاسی جماعتوں نے عورتوں کو ونگز بنا کر محدود کردیا ہے وہاں سے اگر کوئی عورت نکلتی ہے تو اس پر شک کیا جاتا ہے،اس رویے کو تبدیل کرنیکی ضرورت ہے۔ ٹرانس جینڈر ثوبیہ علیخان نے کہا کہ خیبر پختونخوا ایف ایم کی پہلی پروگرام میزبان ہوں، میں ٹرانس جینڈر کے روایتی تشخص کو تبدیل کرنا چاہتی ہوں، مطالبہ کرتی ہوں کہ علاج، تعلیم، ملازمت اور اسمبلی سمیت تمام جگہوں پر ٹرانس جینڈرزکیلئے مواقع پیدا کئے جائیں۔
Live مریم نواز سے متعلق تازہ ترین معلومات