عراق نے ہم جنس پرستی کو قابل سزا جرم قرار دے دیا

DW ڈی ڈبلیو پیر 29 اپریل 2024 17:40

عراق نے ہم جنس پرستی کو قابل سزا جرم قرار دے دیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 اپریل 2024ء) عراق کی طرف سے ہم جنس پرستی کے حوالے سے ملک میں پہلے سے موجود قوانین میں تبدیلی پر امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی ممالک کی طرف سے مذمت کی جا رہی ہے۔ عراق ایک قدامت پسند عرب ملک ہے جہاں ہم جنس پرستی پہلے ہی ایک شجر ممنوعہ سمجھی جاتی ہے۔ عراقی پارلیمان میں قانون سازی کے زریعے اب براہ راست ہم جنس پرستی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

ہم جنس نوبیاہتا جوڑے ’خیروبرکت‘ کی دعا لے سکتے ہیں، ویٹی کن

نیپال میں ہم جنس پسند افراد کی شادی کی قانونی منظوری

1988ء کے انسداد جسم فروشی قانون میں ہفتہ 27 اپریل کو خاموشی سے کی گئی ترمیم کے بعد اب ہم جنس پرستانہ تعلقات ثابت ہونے پر ملزمان کو دس سے پندرہ برس تک جیل کی سزا دی جا سکتی ہے۔

(جاری ہے)

اسی طرح جنس کی تبدیلی کی سزا ایک سے بڑھا کر تین برس تک مقرر کی گئی ہے۔

دانستہ طور پر نسوانیت اختیار کرنے کی بھی اتنی ہی سزا مقرر کی گئی ہے۔

اس قانون میں ان تنظیموں پر بھی پابندی لگائی گئی ہے جو 'جنسی انحراف‘ کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ ایسی صورت میں کم از کم سات برس قید کی سزا مقرر کی گئی ہے اور ساتھ ہی 10 ملین دینار کا جرمانہ بھی، جو 7600 ڈالر کے قریب رقم بنتی ہے۔

قانونی ترمیم پر ردعمل

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو مِلر نے متنبہ کیا ہے کہ یہ قانون ''ان لوگوں کو سب سے زیادہ خطرے میں ڈالے گا جو عراقی معاشرے میں پہلے ہی خطرات کا شکار ہیں۔

‘‘ ساتھ ہی عراق کو اس سبب معاشی اثرات سے بھی خبردار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے ''عراق کی اپنی معیشت کو متنوع بنانے اور غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کی صلاحیت متاثر ہو گی۔‘‘

میتھیو مِلر کے مطابق، ''بین الاقوامی کاروباری اتحاد پہلے ہی اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ عراق میں اس طرح کا امتیاز ملکی تجارتی اور معاشی ترقی کو نقصان پہنچائے گا۔

‘‘

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے اس قانون کو 'خطرناک اور پریشان کن‘ قرار دیا ہے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ایل جی بی ٹی کیو پلس رائٹس سے منسلک سینیئر ریسرچر راشا یونس کے بقول اس قانون کی منظوری ''عراق کے ایل جی بی ٹی لوگوں کے خلاف حقوق کی خلاف ورزیوں کے خوفناک ریکارڈ پر مہر تصدیق ہے اور یہ بنیادی انسانی حقوق کے لیے ایک سنگین دھچکہ ہے، جس میں اظہار رائے اور انجمن سازی کی آزادی، رازداری، مساوات، اور امتیازی سلوک سے مبرا رہنے جیسے حقوق شامل ہیں۔

‘‘

تاہم عراقی حکام نے اس قانون کا دفاع کیا ہے۔ عراقی پارلیمان کے عبوری اسپیکر محسن المندالوی نے ایک بیان میں کہا کہ یہ قانون ''معاشرے کے اقدار کے ڈھانچے کی حفاظت، اور ہمارے بچوں کو اخلاقی بد کرداری اور ہم جنس پرستی کی طرف راغب کرنے کی کوششوں کے خلاف ایک ضروری اقدام تھا۔‘‘

عراقی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس قانون کے ابتدائی مسودے میں ہم جنس پرستانہ تعلقات کے لیے سزائے موت تجویز کی گئی تھی۔

ا ب ا/ش ر (اے پی، ڈی پی اے)