جنہیں اس پارلیمان کا حکم ماننا چاہیے آج وہ ہمارے آقا ہیں، مولانا فضل الرحمان

فیصلے کوئی اور کرتا ہے کالک ہمارے منہ پر ملی جاتی ہے، عوام ہمیں گالیاں دیں یہ کون سی سیاست ہے، سب مل کر سوچیں جمہوریت کہاں ہے؟۔ قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال

Sajid Ali ساجد علی پیر 29 اپریل 2024 17:51

جنہیں اس پارلیمان کا حکم ماننا چاہیے آج وہ ہمارے آقا ہیں، مولانا فضل ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 29 اپریل 2024ء ) جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ خدا کرے یہ خبر غلط ہو لیکن ہماری معلومات کے مطابق اس بار باقاعدہ اسمبلیاں بیچی گئی ہیں، ہارنے والے پریشان اور جیتنے والے مطمئن نہیں، جن کو ہمارے حکم پر چلنا چاہیئے وہ آج ہمارے آقا ہیں۔ قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت میں بیٹھی جماعتوں کے سینیر لوگ مینڈیٹ کو مسترد کررہے ہیں، آج جمہوریت کہاں کھڑی ہے آج ہم یہاں کمزور ہیں، ہم نے اپنی جمہوریت بیچی ہے، ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنے آقا بنائے ہیں، یہی آخرت کی نشانیاں ہوتی ہیں، قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ نوکرانیاں مالکان پیدا کریں گی کیا آج وہی صورتحال نہیں بن چکی؟۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ میاں شہبازشریف کی سربراہی میں مدارس کے حوالے سے کمیٹی بنی، بمشکل بل اسمبلی میں آیا مگر ابتدائی خواندگی کے بعد بل منظور نہیں ہونے دیا گیا، شہبازشریف سے میں نے کہا کہ آپ سے گلہ نہیں ہمیں معلوم ہے کہ بل کس نے پاس نہیں ہونے دیا، بھارت سپرپاور بننے کا خواب دیکھ رہا ہے اور پاکستان دیوالیہ پن سے بچنے کی کوشش کررہا ہے، پس پردہ فیصلے کوئی اور کرتا ہے اور منہ سیاستدانوں کا کالا کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ جلسے کرنا پی ٹی آئی کا حق ہے، جلسے کرنے کے اسد قیصر کے مطالبے پر ان کی حمائت کرتا ہوں، جلسے کرنا اپنی جگہ مگر سنجیدگی سے غور کیا جائے ملک اس وقت کہاں کھڑا ہے؟ اس ملک کے حصول میں بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار نہیں، آج سوچا جائے کہ عوام کہاں کھڑی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کہاں کھڑی ہے؟ آج سوال اٹھ رہا ہے کہ یہ ایوان عوام کا ایوان ہے یا اسٹیبلشمنٹ کا تیارکردہ ایوان ہے، ماضی میں ایک صدر نے پانچ وزیر اعظم تبدیل کیے، سال 1970ء کے نتائج کو سراہتے ہیں، کیا اس الیکشن کے نتیجے میں ملک دولخت نہیں ہوا۔

سربراہ جے یو آئی ف کا کہنا ہے کہ قائد اعظم کا پاکستان آج کہاں ہے، تھوپا گیا سیاستدانوں پر اور کردار جنرل یحیٰ کا تھا، پھر سنبھلے پھر مارشل لا لگا دیا جاتا رہا، سوچنا یہ ہے کہ کب تک یہاں بیٹھنے والوں کی لسٹ میں نام ڈلوانے کے لیے بھیک مانگتے رہیں گے، سال 2018ء کے نتائج پر ہم سب کو اعتراض تھا اسی مینڈیٹ پر کل دھاندلی اعتراض تھا تو آج کیوں نہیں ہے، آج ملک کو جمود کا شکار بنا دیا گیا ہے، جمود کی شکار قومیں گرتی ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ملک اسلام کے نام پر لیا اور آج ملک سیکولر کا روپ دھار چکا ہے، اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹس پر ایک بھی قانون نہیں بنایا گیا، ایوانوں میں بھرے جانے والوں کو اسلام سے کوئی دلچسپی ہی نہیں، بتائیں ملک میں کہاں اسلام کا نظام ہے؟ آئین قرآن و سنت کے منافی قانون سازی کو روکتا ہے، آپ تو دین و مذہب کے فروغ کے اداروں کو بھی پابند کردینا چاہتے ہیں۔