Live Updates

پنجاب حکومت نے ہتک عزت بل ایوان سے منظور کرا لیا،اپوزیشن نے مسترد کر دیا ،شدید احتجاج ، بل کی کاپیاں پھاڑ دیں

صحافیوں نے بھی پریس گیلری سے واک آئوٹ کر کے اسمبلی احاطے میں احتجاج ریکارڈ کرایا، ملک گیر احتجاج کی کال دیدی بل کا اطلاق میڈیا کے تمام میڈمز پر ہوگا ، فیس بک ، ٹک ٹاک ،ٹوئٹر ،یوٹیوب ،انسٹا گرام پر بھی غلط خبر یا کردار کشی پر 30 لاکھ ہرجانہ ہوگا، کیس سننے کیلئے ٹربیونلز ،180دنوں میں فیصلے کے پابند ، آئینی عہدوں پر تعینات شخصیات کے کیسز ہائیکورٹ کے بنچ کے پاس سنے جائیں گے

پیر 20 مئی 2024 23:00

پنجاب حکومت نے ہتک عزت بل ایوان سے منظور کرا لیا،اپوزیشن نے مسترد کر ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 مئی2024ء) پنجاب حکومت نے ہتک عزت بل 2024کو ایوان سے منظور کر الیا،اپوزیشن نے بل کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج کیا اور بل کی کاپیاں پھاڑ دیں ، صحافیوں نے بھی پریس گیلری سے واک آئوٹ کر کے اسمبلی احاطے میں احتجاج ریکارڈ کرایا اور ملک گیر احتجاج کی کال دیدی ،بل کا اطلاق الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر ہوگا ، فیس بک ، ٹک ٹاک ،ٹوئٹر ،یوٹیوب ،انسٹا گرام پر بھی غلط خبر یا کردار کشی پر تیس لاکھ روپے ہرجانہ ہوگا،کیس سننے کیلئے ٹربیونلز قائم کئے جائیں گے جو 180دنوں میں فیصلے کے پابند ہوں گے، آئینی عہدوں پر تعینات شخصیات کے کیسز ہائیکورٹ کے بنچ کے پاس سنے جائیں گے، پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی المناک شہادت پر متفقہ تعزیتی ریفرنس کی قرارداد منظور کر لی ۔

(جاری ہے)

پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز مقررہ وقت کی بجائے دوگھنٹے چوبیس منٹ کی تاخیر سے اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان کی صدارت میں شروع ہوا۔اجلاس کے باضابطہ آغازسے قبل ہی اپوزیشن نے ہتک عزت بل کے خلاف نعرہ بازی شروع کر دی ۔اپوزیشن کی طرف سے کالاقانون نامنظور،جعلی حکومت کے نعرے لگاتی رہی۔اجلاس کے دوران پنجاب اسمبلی کا سائونڈ سسٹم اچانک خراب ہوگیا جس پر اسپیکر نے ایوان کی کارروائی پانچ منٹ کیلئے ملتوی کردی۔

اجلاس پانچ منٹ کے وقفہ کے بعد دوبارہ شروع ہو ا تو صوبائی وزیر ذیشان رفیق نے محکمہ بلدیات سے متعلقہ سوالات کے جوابات دئیے ۔اجلاس کے دوران نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے حکومتی رکن امجد علی جاوید نے بتایا کہ مجھے ایوان میں مسائل پر بات کرنے کی ’’ڈوز ‘‘مل گئی ہے، میں افسران کی نااہلیاں اور نالائقیوں کی کالک سیاستدانوں پر نہیںملنے دوں گا،اس گلے سڑے نظام کا آپریشن اور نشاندہی کرتا رہوں گا۔

رکن اسمبلی نے کہا کہ افسر شاہی کے خلاف بولنے پر میرے بھانجے کا ٹرانسپورٹ اڈا بند کر نے کی دھمکی دی گئی ہے ، یہ دھمکی ڈپٹی کمشنر نے دی ہے ۔اسپیکر نے معاملے پر وزیر پارلیمانی امور سے آج اپنے چیمبر میں رپورٹ طلب کر لی ۔اجلاس کے دوران وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمن کی جانب سے ہتک عزت پنجاب 2024منظوری کے لئے ایوان میں پیش کیا گیا جسے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا اور اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد کردی گئیں۔

پریس گیلری میں صحافیوں نے بھی بل کے خلاف احتجاجاًواک آئوٹ کردیا۔منظور کئے گئے بل کے نکات کے مطابق اس کا اطلاق پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ہو گا ،پھیلائی جانے والی جھوٹی ، غیر حقیقی خبروں پر ہتک عزت کا کیس ہو سکے گا ،یوٹیوب ، سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی جعلی خبروں پر بھی بل کا اطلاق ہو گا،ذاتی زندگی ، عوامی مقام کو نقصان پہنچانے کے لئے پھیلائی جانے والی خبروں پر کارروائی ہو گی ،ہتک عزت کے کیسز کے لئے ٹربیونل قائم ہوں گے جو 6ماہ میں فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گے،ہتک عزت بل کے تحت 30لاکھ روپے کا ہرجانہ ہو گا ،آئینی عہدوں پر موجود شخصیات کے خلاف الزام پر ہائیکورٹ بنچ کیس سن سکیں گے،خواتین ، خواجہ سرائوں کے کیس کی قانونی معاونت کے لئے حکومتی لیگل ٹیم کی سہولت ہو گی۔

قبل ازیںحکومت نے صحافتی تنظیموں کی بل موخر کرنے کی تجویز مسترد کردی، صحافتی تنظیموں نے وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری سے ملاقات میں بل کچھ روز کے لئے موخر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔اپوزیشن نے بھی ہتک عزت بل کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے مستردکردیا۔اپوزیشن نے بل بارے دس سے زائد ترامیم پنجاب اسمبلی میں جمع کروائیں۔پنجاب اسمبلی ہتک عزت بل 2024بل کے خلاف اپوزیشن کی ترامیم کوایوان میں زیر بحث لایا گیا۔

قائد حزب اختلاف احمد خان بھچر نے اپنی ترمیم کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہتک عزت بل 2024 کالا قانون ہے اس کا حصہ نہیں بنیں گے۔انہوں نے کہا کہ چار بار درخواست کے باوجود انسداد دہشتگردی عدالت کے جج تعینات نہیں ہو رہے، ہتک عزت قانون سے آزادی اظہار رائے پر قدغن لگے گا،ہتک عزت قانون پر ججز کا پینل پنجاب حکومت کو دینا ہے ۔بل کو سپیشل کمیٹی کے پاس بھیجیں،کیا جلدی ہے کہ رات بارہ بجے سے پہلے اس بل کو منظور کرانا ہے ، کمیٹی میں سب اسٹیک ہولڈرز کو بلا کر اعتماد میں لیں ۔

اپوزیشن رکن احمر رشید بھٹی نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہتک عزت بل لاکر آرٹیکل 8 کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، اس قانون کی کلاز23 بھی ہتک عزت قانون 2024سے متصادم ہے، چوتھی ترمیم کے بعد ہتک عزت کا لفظ آئین سے ہی نکال دیا گیا تھا جسے اب دوبارہ قانون کا حصہ بنایا جا رہا ہے، آرٹیکل 202,203 بھی ہتک عزت بل بل کی مخالفت کرتا ہے اور خلاف ورزی ہے، آپ چاہتے ہیں کہ اگر کالا قانون بنانا آپ کی مجبوری ہے تو اسے میڈیا اور عوام کے حقوق کو سامنے رکھتے ہوئے ترتیب دیں ،عوام ہمیں تنخواہیں اس لئے نہیں دیتے کہ ان کاحق اظہار رائے ہی چھین لیں۔

اپوزیشن رکن اعجاز شفیع نے کہا کہ آپ کو کالا قانون بنانے کی حسرت نہیں تھی بلکہ شوق ہے ، انہوں نے کہا کہ تاریخ لکھی جائے گی کالا قانون بنایا گیا ،اس پر دوبارہ نظر ثانی کرکے سب کوآن بورڈ لیں، جب آئینی حقوق ہی ختم کر دئیے جائیں تو بات کرنے کا حق بھی چھین لیاجائے گا۔اجلاس کے دوران چیئر نے صوبائی وزراء بلال یاسین ، عاشق کرمانی اور شیر علی گور چانی کو صحافیوں کو مناکر پریس گیلری میں واپس لانے کیلئے بھیجا۔

اپوزیشن رکن ندیم قریشی نے کہا کہ آج کا دن ملکی تاریخ میں بدترین دن ہے، آپ چاہتے ہیں سارے میڈیا ہائوسز کو بند کردیا جائے اور پچیس کروڑ عوام کاگلا دبا دیا جائے، بدنصیب و کالا قانون ہمارے حصہ میں آیا ہے ،شاید دنیا کی اسمبلی میں ایسا قانون بنایا جا رہا ہے جو اس کالے دن کو ہمیشہ یاد رکھے گی،حکومت گندم مہنگائی انفراسٹرکچر پر پالیسی بناتی ہے لیکن یہاں حکومت کے ذہنوں پر مخالف سوار ہیں ،حکومت کہتی ہے کوئی صحافی بات نہ کرے ، آپ اس طرح اس نظام کو قائم نہیں رکھ سکتے، اپوزیشن رکن راناشہباز نے کہا کہ ہتک عزت بل کیلئے بنائی گئی کمیٹی میں ہمارے لوگ حاضر نہیں تھے، ہمارا ایک ممبر ملک سے باہر اور ایک عدالتوں کے چکر لگا رہاتھا، ہتک عزت بل کے سلسلے میں ہونے والی میٹنگ میں اپوزیشن کا صرف ایک رکن موجود تھااس کی بات بھی نہیں سنی گئی، ہتک عزت قانون کیلئے ٹربیونل چیف جسٹس کی مرضی سے بننے چاہئیں،حکومت کی مرضی سے لگے تو اس کا نقصان ہوگا، ۔

عنصر ہرل نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے خلاف کسی قانون کی ضرورت نہیں ، آپ کا جب دل کرے جیل میں ڈال دیں۔رائے احسن کھرل نے کہا کہ ہم تو پہلے ہی اوور لیجسٹیو ہوچکے ہیں ،ہتک عزت قانون کی کیا جلدی ہے، اگر کوئی بلوچستان اورسندھ سے کہہ دے فلاں ٹبر چور ہے تو اس پر قانون کیسے لاگو ہوگا، ججز کا طریقہ کار ایس ایچ او لگانے کے مترادف ہے یہ بل لانے والوں پر ہی پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا پر قدغن لگ چکی ہیں یہ قانون عوام سے زیادتی ہے۔جنید افضل ساہی نے کہا کہ سرکار آٹو پائلٹ پر چل رہی ہے اور یہ اسمبلی بھی آٹو پائلٹ پر چلانا چاہتی ہے، ہتک عزت کا قانون پی ٹی آئی کو ٹارگٹ کرنے کیلئے لایا جا رہا ہے، جس پر دل کرے گا عدالتوں کے چکر لگوانے کیلئے اس قانون کا استعمال کیاجائے گا۔اپوزیشن رکن حافظ فرحت عباس نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہتک عزت سے پہلے عزت کا دعویٰ کرنا پڑتاہے،آج جو حکومت والے تالیاں بجا رہے ہیں کل اپوزیشن بنچوں پربیٹھ کر رو رہے ہوں گے، پہلے ہی قوانین موجود ہیں لیکن سپیشل قانون بنا یا جارہا ہے ، اس سے معاشرہ پنپ نہیں سکے گا۔

۔وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمن نے بل کو دوبارہ سلیکٹ کمیٹی میں بھیجنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی میں پہلے ہی تسلی بخش بحث ہو چکی ہے، مزید سلیکٹ کمیٹی میں بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ انہوںنے کہا کہ ہماری لیڈر شپ سب عدالتوں سے باعزت بری ہوگئی ہے ،اب چوری اور دہشتگردی کے الزام میں آپ کا لیڈر اڈیالہ جیل میں ہے، ایک سو نوے ملین کرپشن اور سعودی عرب سے ملنے والی گھڑی چوری میں ہمارا نہیں آپ کا بانی جیل میں ہے، آپ کے لیڈر نے توشہ خانہ کی کوئی چیز نہیں چھوڑی ،چوری کا ہمیں نہ سنائیں خود کو دیکھیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسے چیف جسٹس بھی تھے جو نیازی کو کہتے تھے گڈ ٹو سی یو ،وہ کہتے رہے کہ بانی پر جتنے کیسز ہیں سب میں ضمانت دیدو، اگر کوئی بات کرو گے تو پورا جواب دیں گے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق نے ہتک عزت بل کے حوالے سے اپوزیشن کے تحفظات پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایگزیکٹو ججز تعینات کرتے تھے تو بھگوان داس جیسے لوگ سامنے آئے جو مثالی ججز تھے۔

کسی مہذب معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا کہ الزام لگا دیں اور کہیں یہ آزاد ی اظہار رائے ہے، کسی پر الزامات لگانے کے بعد ثبوت دینا ہوں گے۔ انہوںنے کہا کہ سینے پر ہاتھ رکھ کر بتائیں قانون 2002 کا کیا جواب دعویٰ یا جواب آتا تھا،اٹھارہویں ترمیم کے بعد ایوان کو قانون سازی کا اختیار ہے، اپوزیشن نے کہا کہ آرٹیکل 175 اے آزاد ی اظہار رائے کے خلاف ہے تو یہ آرٹیکل ججز کی تعیناتی کا ہے، آرٹیکل 203 ماتحت عدلیہ کے رولز بنانے کے لئے جو ہائیکورٹ بناتی ہے ،ماتحت عدلیہ کے قانون ایگزیکٹو کو بنانے چاہئیں،قانون ساز اسمبلی نے جو حق کھو دیا ہے اس بل کے ذریعے وہ حق واپس ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ایوان میں تو سپریم کورٹ کے جج کو کسی نئے بنائے جانے والے قانون کا فیصلے کے بارے میں جواب دینا پڑتا ہے اوراس وقت تک وہ باہر نہیں جا سکتا۔ بحث میں دیگر اپوزیشن ممبران نے بھی حصہ لیا۔ پنجاب اسمبلی کے ایوان نے ہتک عزت بل کثرت رائے سے منظور کر لیا جس پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کی اور بل کی کاپیاں پھاڑ دیں ۔ اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی المناک شہادت پر متفقہ تعزیتی ریفرنس کی قرارداد منظور کر لی ۔

قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ پوری قوم ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی اچانک موت پر سوگوار اور گہرے صدمے سے دوچار ہے، ابراہیم رئیسی نے حال میں پاکستان کا دورہ کیا جس سے پاک ایران باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے پر انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، ایرانی صدر کاوشوں کو کبھی فراموش نہیں کیاجا سکتا، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی شہادت سے عالم اسلام عظیم رہنما سے محروم ہوگیا، یہ ایوان ایرانی صدر اور رفقاء کی شہادت پر دلی تعزیت کااظہار کرتا ہے اللہ انہیں جوار رحمت میں جگہ عطا کرے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔

ایجنڈا مکمل ہونے پر پنجاب اسمبلی کااجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا گیا۔پریس کلب کے صدر ارشد انصاری نے پنجاب اسمبلی کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ ایوان میں ہوا یہ جمہوری عمل نہیں ہے، یہ کوئی جمہوری بل نہیں ہے، اب حکومت سن لے آپ کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں، دوبارہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا اجلاس ہوگا، جوائنٹ ایکشن کمیٹی میں آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا، اب قومی وصوبائی اسمبلیاں نہیں چلیں گی۔

صدر لاہور پریس کلب نے کہا کہ جتنے مرضی کالے قوانین بنالیں آزادی صحافت پر کوئی قدغن برداشت نہیں کریں گے۔ارشد انصاری نے کہا کہ صرف لاہور نہیں پورے پاکستان میں احتجاج ہوں گے، ہم آپ لوگوں کو پھراسمبلیوں میں داخل نہیں ہونے دیں گے، صحافیوں کے کالا قانون نامنظور کے نعرے لگائے۔قبل ازیں ہتک عزت 2024بل کے حوالے سے صحافتی تنظیموں کے نمائندوں کی سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان اور وزیر اطلاعات پنجاب عظمی بخاری سے تین گھنٹے کی طویل مشاورت ہوئی ، ملاقات میں صحافتی تنظیموں نے بل پر تحفظات سے آگاہ کیااور بل کا مزید جائزہ لینے اور تجاویز دینے کیلئے بل کی منظوری موخر کرنے کا مطالبہ کیاجو کہ تسلیم نہ کیا گیا گیا۔

صحافتی تنظیموں نے اپنے موقف میں کہا کہ ابھی کچھ تنظیموں نے تجاویز دی ہیں باقی اسٹیک ہولڈرز کی تجاویز آناباقی ہیں،بل میں وفاقی قانون سازی اور پنجاب کی قانون سازی پر بنیادی ابہام ہیں انہیں دورکرنا ضروری ہیں۔ایڈووکیٹ جنرل اور وزیر اطلاعات عظمی بخاری نے بل بارے بریفنگ دی، سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان کا کہنا تھا کہ حکومت صحافیوں کی تجاویز لینے کیلئے تیار ہے،ہتک عزت بل ایجنڈے پر آ چکا ہے اب حکومت بتائے گی کہ اس نے اگلا لائحہ عمل اختیار کرنا ہے۔
Live پی ٹی آئی پر پابندی سے متعلق تازہ ترین معلومات