Cہمدرد شوریٰ کراچی کا ماہانہ اجلاس

ٹ*شرکا ء نے ریاستی ملکیتی اداروں کی نج کاری کے فیصلے کا خیر مقدم کیا

جمعہ 14 جون 2024 19:05

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 جون2024ء) ہمدرد شوریٰ کراچی کا ماہانہ اجلاس گزشتہ روز ہمدرد فائونڈیشن پاکستان کی صدر سعدیہ راشد کی موجودگی میں ’’سرکاری اداروں کی نج کاری اور بندش اور فارغ کیے گئے ملازمین کا مستقبل‘‘کے موضوع پر اسپیکر جنرل (ر) معین الدین حیدر کی زیر صدارت ہمدرد کارپوریٹ ہیڈ آفس میں منعقد ہوا۔جس میں شرکا ء نے ریاستی ملکیتی اداروں کی نج کاری کے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور اٴْمید ظاہر کی کہ نج کاری کے عمل میں قومی اثاثوں کی فروخت سے متعلق تمام معاملات شفافیت سے طے پائیں گے۔

جنرل (ر) معین الدین حیدر نے کہاکہ ریاستی ملکیتی اداروں کی ناکامی اور مسلسل خسارے کی بنیادی وجوہات میں ضرورت سے زیادہ بھرتیاں اور ملک کے مجموعی معاشی حالات شامل ہیں۔

(جاری ہے)

بدقسمتی سے پاکستان کے کبھی ایسے حالات نہیں رہے کہ متفرق سیکٹرز میں تسلسل سے بیرونی سرمایہ کاری ہوتی رہی ہو۔اسی وجہ سے ملک میں نوجوانوں کے لیے ملازمت کے مواقع کم رہے۔

مجبوراً ان نوجوانوں کو ریاستی ملکیتی اداروں میں کھپایا گیا۔ موجودہ معاشی چیلنجز نے حکومت کو مجبور کردیا کہ وہ اپنے خرچے کم کریاورنج کاری کے ذریعے پچیس ایس او ایز کے انتظامی معاملات سے پیچھے جائے۔ ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز کی بھرمار سے عام لوگوں کی قوت خرید پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ہم عوام ریاستی اداروں اور محکموں میں دہائیوں سے جاری بدانتظامی اور بدعنوانیوں کے ثمرات بھگت رہے ہیں۔

ظفر اقبال، کموڈور (ر)سدید انور ملک ، انجینئر انوار الحق، رضوان احمد، سلطان چاولہ، عامر طاسین، ہما بیگ، سینیٹر عبدالحسیب خان، پروفیسر ڈاکٹر بھوانی شنکھراور کرنل (ر) مختار احمد بٹ نے کہاکہ ریاستی ملکیتی ادارے اوور اسٹافنگ او ر بدانتظامی کی وجہ سے خسارے کا شکار ہیں۔خدشہ ہے کہ جب انھیں نجی شعبے کے حوالے کیا جائے گا تو بہت سے ملازمین بے روزگار ہوجائیں گے۔

نج کاری کے عمل کو شروع کرنے سے پہلے تمام حصول یافتگان کو اعتماد میں لینا ہوگا کیوں کہ بے روزگاری سے سماجی مسائل اور بے چینی بڑھ سکتی ہے۔بدقسمتی سے ایس او ایز میں ملازم یہ لوگ بیرون ملک نہیں بھیجے جاسکتے کیوں کہ ان میں زیادہ تر جدید تعلیم سے آراستہ نہیں اور نہ ہی ہنر مندہیں۔ان کے لیے تعلیم بالغان کے ساتھ ساتھ ہنر مند بنانے کے لیے کورسز متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔

ایس او ایز کے بہت سے ملازمین متبادل ذریعہ آمدن سے پہلے ہی منسلک ہوچکے ہیں۔ ورنہ بغیر تنخواہ کوئی کیسے چھ ماہ گزار سکتا ہے۔لیکن اگر ان لوگوں کو فارغ بھی کردیا جاتا ہے تو بھی انھیں گولڈن ہینڈ شیک جیسی اسکیموںکے ذریعے اچھی رقوم ملیں گی، جس سے یہ کوئی بھی چھوٹا کاروبار شروع کرسکتے ہیں۔اس لیینج کاری کے بعد بڑے پیمانے پر بے روزگاری پھیلنے کے خدشات بے بنیاد ہیں۔

پی ٹی سی ایل اور کے الیکٹرک کی نج کاری حکومت کے لیے ثمر ا?ور ثابت ہوئی، کیوں کہ ریاست کے پاس ان کمپنیوں کے اکثریتی حصص ہیں، جس سے سالانہ کروڑوں روپے حکومتی فنڈز میں جمع ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ نج کاری نے پی ٹی سی ایل اور کے الیکٹرک کی آپریشنل کارکردگی اور استعداد کار میں اضافہ کیا ہے۔سرمایہ کاروں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جائے کہ وہ کم از کم ایک سال تک کسی ملازم کو فارغ نہیں کریں گے اوراٴْنھیں اپنی صلاحیتیں ثابت کرنے کا موقع دیں گے۔

ریاست کا کام کاروبارکرنا نہیں بلکہ کاروبار کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنااور اقتصادی سرگرمیوں کو ریگولیٹ کرنا ہے۔ اسٹیل ملز منافع بخش ہوسکتی ہیں کیوں کہ دنیا بھر میں اسٹیل کی مانگ ہے۔ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بدانتظامی ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔#