خصوصی رپورٹ: لبنان کے البداوی کیمپ میں فلسطینی پناہ گزینوں کی زندگی

یو این اتوار 21 جولائی 2024 03:00

خصوصی رپورٹ: لبنان کے البداوی کیمپ میں فلسطینی پناہ گزینوں کی زندگی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 21 جولائی 2024ء) لبنان کے دوسرے دارالحکومت طرابلس کے نواح میں فلسطینی پناہ گزینوں کا ایک کیمپ واقع ہے جس کی تاریخ ان لوگوں کی بدحالی کے ماہ و سال جتنی ہی طویل ہے۔

البداوی کیمپ 1955 میں قائم کیا گیا تھا جہاں ایسے بہت سے لوگ رہتے ہیں جنہیں 1948 کی عرب۔اسرائیل جنگ کے بعد بالائی گیلیلی اور شمالی ساحلی شہروں میں اپنے گھروں سے بے دخل ہونا پڑا تھا۔

فلسطینی اس واقعے کو عربی زبان میں نکبہ (تباہی) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

اس کے بعد لبنان کی خانہ جنگی سے شام کی جنگ تک بہت سے مسلح تنازعات کے نتیجے میں البداوی کیمپ میں بے ریاست فلسطینی اور شامی لوگوں کی آبادی متواتر بڑھتی رہی ہے۔ یہاں کی تنگ اور بدحال گلیاں کیمپ کے باسیوں کی اپنی بقا کے لیے جدوجہد کی داستان سناتی ہیں۔

(جاری ہے)

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) کے مطابق، ایک مربع کلومیٹر کے اس علاقے میں 21 ہزار سے زیادہ فلسطینی آباد ہیں جن کے ساتھ بڑی تعداد میں غریب لبنانی آبادی اور شامی پناہ گزین بھی مقیم ہیں۔

البداوی کیمپ کے ارد گرد واقع غریب آبادیوں کی طرح اس جگہ کے لوگوں کو بھی روزگار کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ لبنان میں 2019 کے اواخر میں آنے والے معاشی بحران نے یہاں کی آبادی بالخصوص ایسے لوگوں کے حالات کو اور بھی خراب کر دیا ہے جو پہلے بھی بہت مشکل سے گزربسر کرتے تھے۔

UN News / Ezzat El-Ferri
فلسطینی پناہ گزینوں کے البداوی کیمپ کی ایک دیوار پر ارجنٹائن کے سپر سٹار فٹبالر مرحوم میراڈونا کی تصویر پینٹ ہے۔

بیروزگاری، غربت اور طبی مسائل

احمد٭ آٹھ بچوں کے بیروزگار باپ ہیں جنہیں طویل عرصہ سے کئی بیماریاں لاحق ہیں۔

فخریہ طور پر اپنے نام سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے یو این نیوز کو بتایا کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کیمپ میں پائے جانے والے چوہے بجلی کی تاروں پر چڑھ جاتے ہیں جو کسی جال کی صورت گلی سے چوتھی منزل پر ان کے ایک کمرے پر مشتمل اپارٹمنٹ تک پھیلی ہیں۔

شدید گرمی کے باعث انہیں اپنے گھر کی کھڑکیاں کھلی رکھنا پڑتی ہیں۔ چنانچہ یہ چوہے خوراک کی تلاش میں ان کے گھر میں بھی آجاتے ہیں۔

تاہم یہاں انہیں کھانے کے لیے کچھ نہیں ملتا۔ گھر میں موجود فریج کی تار نکلی ہوئی ہے جو اس بات کا ثبوت ہےکہ ان کے گھرانے کو کئی مرتبہ رات کا کھانا میسر نہیں آتا۔ ہمسایے نے ازراہ ہمدردی انہیں بجلی کا کنکشن دے رکھا ہے لیکن پنکھا نہ ہونے کے باعث وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔

احمد کا کہنا ہے کہ انہیں کہیں سے ادھار بھی نہیں ملتا اور گزربسر کے لیے وہ 'انرا' کی نقد امداد پر انحصار کرتے ہیں۔ ادارہ انہیں 18 سال سے کم عمر بچوں کے لیے ہر تین ماہ کے بعد فی کس 50 ڈالر مہیا کرتا ہے۔ ادارے کو لاحق مالی وسائل کے باعث فی الوقت یہ رقم بھی کم ہو کر 30 ڈالر رہ گئی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ گھر میں کھانا تیار کرنے پر کم از کم دس لاکھ لیرا (11.17 ڈالر) خرچ آتا ہے۔

ان کے بڑے بیٹے کو بولنے میں دشواری کا عارضہ ہے۔ انہوں ںے اسے کاروبار سیکھنے کے لیے بھیجنے کی کوشش کی لیکن لوگ اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ اب وہ گھر پر ہی رہتا ہے اور بظاہر اس کا کوئی مستقبل دکھائی نہیں دیتا۔ اس کیمپ میں بہت سے لوگوں کو ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے۔ احمد خدا سے سبھی کی مشکلات دور ہونے کی دعا کرتے ہیں۔

UN News / Ezzat El-Ferri
مائیں اور بچے البداوی کیمپ میں قائم ’انرا‘ کے ایک طبی مرکز میں علاج معالجے کے لیے اپنی باری کے منتظر ہیں۔

'انرا' کا ناگزیر کردار

'انرا' البداوی کیمپ سمیت پورے خطے میں فلسطینی آبادی کو مدد دینے کے ہرممکن اقدامات کر رہا ہے۔ اسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1949 میں قرارداد 302 کے ذریعے یہ ذمہ داری تفویض کی تھی۔ ادارہ لوگوں کو تعلیم، صحت، تحفظ اور سماجی خدمات مہیا کرتا ہے جبکہ کیمپ میں لوگوں کی سلامتی اور اس کے انتظامی امور چلانے کی ذمہ داری کمیٹیوں اور فلسطینی دھڑوں کے ذمے ہے۔

کیمپ میں واقع 'انرا' کے واحد طبی مرکز میں عملے کے 28 ارکان کام کرتے ہیں اور یہ تمام فلسطینی پناہ گزین ہیں۔ اس مرکز میں روزانہ 400 تا 500 مریضوں کو علاج معالجہ مہیا کیا جاتا ہے۔ اس میں دانتوں کے علاج سے لے کر آنکھوں کی دیکھ بھال تک اور عام بیماریوں سے لے کر سنگین امراض تک بہت سے معاملات میں طبی مشاورت مہیا کی جاتی ہے۔

شمالی لبنان میں 'انرا' کے طبی شعبے کے سربراہ ڈاکٹر حسام غنائم نے یو این نیوز کو بتایا کہ کیمپ میں فلسطینیوں کو مہیا کی جانے والی طبی خدمات بہت اہم ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 'انرا' کی غیرموجودگی میں یہ کیمپ تباہی کا منظر پیش کرے گا کیونکہ علاقے میں کوئی اور امدادی ادارہ اس طرح کی مدد نہیں پہنچا سکتا جو 'انرا' مہیا کر رہا ہے۔

ڈاکٹر غنائم نے بتایا کہ 'انرا' نے لبنان کے سات سرکاری و نجی ہسپتالوں اور فلسطینی ہلال احمر کے ہسپتال سے بھی معاہدہ کر رکھا ہے جس کے ذریعے کیمپ کے مریضوں کا طبی خدمات کے حصول میں خرچ بہت کم رہ جاتا ہے لیکن اس کے باوجود بیشتر فلسطینیوں کے لیے اپنے حصے کے معمولی سے اخراجات برداشت کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔

معاشی بگاڑ نے لبنان کے لوگوں کے لیے بھی روزگار کے مواقع کو محدود کر دیا ہے، ایسے میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے مسائل اور بھی بڑھ گئے ہیں جنہیں 70 سے زیادہ پیشوں میں کام کی اجازت نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سرطان کے مریضوں کی صورتحال کچھ اچھی نہیں ہے۔ ادارہ ایسے مریضوں کے علاج معالجے پر اٹھنے والے 75 فیصد اخراجات خود برداشت کرتا ہے کیونکہ لبنان کی حکومت فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے ایسے علاج پر امدادی قیمت مہیا نہیں کرتی۔

چونکہ بیشتر فلسطینی پناہ گزین بیروزگار ہیں اس لیے ان کے لیے یہ اخراجات اٹھانا ممکن نہیں ہوتا۔

UN News / Ezzat El-Ferri
البداوی کیمپ میں احمد اپنے خاندان کے ساتھ ایک کمرے میں سونے پر مجبور ہیں۔

پناہ گزینوں کا امدادی کام

ڈاکٹر غنائم کہتے ہیں کہ فلسطینی پناہ گزینوں کی ضروریات کے باعث ہی 'انرا' کا وجود قائم ہے۔

انہیں 'انرا' کے لیے کام کرنے پر فخر ہے کیونکہ اس طرح انہیں اپنے فلسطینی ہم وطنوں کی خدمت کا موقع ملتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'انرا' کا وجود ان کے لیے نکبہ کی یاد دہانی اور 1948 سے اب تک ان کی مہاجرانہ حیثیت کا ثبوت ہے۔

اس کی بدولت فلسطینی پناہ گزینوں کو وطن واپسی تک اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملتی ہے۔

البداوی کیمپ میں 'انرا' کے طبی مرکز کے سربراہ ڈاکٹر محمد بدران بھی انہی خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی پناہ گزین کی حیثیت سے اپنے ہم وطن لوگوں کو کڑے معاشی حالات اور رہن سہن کی مشکلات میں مدد مہیا کرنا ہی ان کی وہ کم از کم خدمت ہے جو وہ کر سکتے ہیں۔

انہوں یو این نیوز کو بتایا کہ 'انرا' کا وجود فلسطینی پناہ گزینوں کو درپیش طویل مشکلات کی یاد دہانی کراتا ہے۔ جب تک فلسطینی پناہ گزین کی حیثیت سے رہیں گے اس وقت تک 'انرا' بھی ان کی مدد کے لیے قائم رہے گا۔