سینیٹر ذیشان خانزادہ کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیز و انسانی وسائل کی ترقی کا اجلاس

منگل 30 جولائی 2024 20:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 30 جولائی2024ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیز و انسانی وسائل کی ترقی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر ذیشان خانزادہ کی زیر صدارت منگل کو پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر ذیشان خانزادہ نے اجلاس کا آغاز اس بات پر زور دیتے ہوئے کیا کہ سمندر پار پاکستانیوں اور انسانی وسائل کی ترقی کے شعبے میں بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے جسے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

وزارت اوورسیز پاکستانیز و ترقی انسانی وسائل کے سیکرٹری نے کمیٹی کے ارکان کو وزارت کے مینڈیٹ سے آگاہ کرتے ہوئے انسانی وسائل کی ترقی ہجرت، بہبود اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے مجوزہ ماسٹر پلان بارے آگاہ کیا۔اس میں سٹارٹ اپس کے لیے سرمایہ کاری کی سہولت فراہم کرنا، NAVTTC جیسے اداروں کے ذریعے مہارت کی ترقی کو مربوط کرنا اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ فعال طور پر رابطہ کاری شامل ہے۔

(جاری ہے)

سیکرٹری نے مینڈیٹ کی کمی کی نشاندہی کی اور کابینہ ڈویژن سے تعاون کی درخواست کی۔ انہوں نے وزارت کے قانونی اور ادارہ جاتی فریم ورک کا ایک جائزہ بھی پیش کیا۔ سیکریٹری نے وزارت کے حوالے سے بتایا کہ 315 منظور شدہ آسامیاں ہیں، جن میں سے 207 بھری ہوئی ہیں اور 108 خالی ہیں۔ وزارت کے حکام نے مجموعی بجٹ بھی کمیٹی کے ارکان کے ساتھ شیئر کیا۔ سینیٹر ضمیر حسین گھمرو نے ہدایت کی کہ وزارت کے حکام منظور شدہ آسامیوں کی تفصیلی معلومات آئندہ اجلاس میں لائیں۔

سیکرٹری نے مزید بتایا کہ گھریلو لیبر فورس 71.8 ملین افراد پر مشتمل ہے، جبکہ تارکین وطن میں 10.7 ملین افراد شامل ہیں جو بنیادی طور پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا میں ہیں ۔ وزارت کے حکام نے پاکستانی مزدوروں کی بیرون ملک ملازمت میں کمی کے رجحان بارے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کمی کی وجہ ان معاشروں میں جدیدیت اور جدید ٹیکنالوجی ہے جبکہ پاکستانی لیبر فورس کا ایک بڑا حصہ غیر ہنرمند ہے۔

مزید برآں گھریلو لیبر فورس میں وسائل اور سکلڈ ڈویلپمنٹ کا فقدان ہے جس کے نتیجے میں دوسرے ممالک کے کارکن پاکستانی کارکنوں کی جگہ لے رہے ہیں۔ مزید یہ کہ بیرون ملک پاکستانی افرادی قوت میں مجرمانہ سرگرمیوں کے مسائل ہیں۔ مثال کے طور پر متحدہ عرب امارات میں لیبر فورس میں جرائم کی شرح کا 50 فیصد مبینہ طور پر پاکستانیوں سے منسوب ہے۔ حکام نے بتایا کہ تارکین وطن کے لیے اورینٹیشن سیشن منعقد کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش جیسے ممالک کی ہنر مند لیبر ایک تحریک کا کام کرتی ہے، اور پاکستان کو اس کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔سینیٹر راجہ ناصر عباس نے روزی کمانے کے لیے عراق میں غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کے اہم مسئلے پر توجہ دلائی اور تجویز پیش کی کہ ان کی حیثیت کو قانونی شکل دی جائے، جن کے ساتھ اکثر ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔

سینیٹر ذیشان خانزادہ نے صورتحال کی سنگینی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اٹلی میں غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کا ایک حصہ جسے غیر پاکستانی کے طور پر شناخت کیا جاتا ہے جبکہ سفارت خانہ ان کی شناخت پاکستانی شہری کے طور پر کرتا ہے۔وزارت اوورسیز پاکستانیز و ترقی انسانی وسائل کے سیکرٹری نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 95 فیصد ملازمتوں کی تلاش پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے کی جاتی ہے۔

انہوں نے وزارت کو درپیش متعدد چیلنجوں کا خاکہ پیش کیا، جن میں ملازمت کے حصول کے درست اعداد و شمار کے حصول میں مشکلات، ملازمت کے مواقع حاصل ہونے کے بعد متعلقہ محکموں کی جانب سے تعاون کا فقدان، ترسیلات زر کے شعبوں پر ناکافی توجہ، اور لیبر فورس کے لیے امیگریشن کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت شامل ہیں۔ کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ اہم مسئلہ عمل درآمد میں ہے اور اس پہلو کو بہتر بنانے سے ملک کو فائدہ ہوگا۔

مزید برآں سیکرٹری نے دو سالہ تبدیلی کا منصوبہ پیش کیا جس میں ترسیلات زر کو بڑھانے، سرمایہ کاری کو فروغ دینے، اور قومی ترقی میں معاونت کے لیے پاکستانی ڈائیسپورا کی موثر شمولیت شامل ہے۔ سینیٹر کاظم علی شاہ نے کہا کہ وزارت اوورسیز، سندھ میں اوورسیز ایمپلائز پروموٹرز (او ای پیز) کی فہرست فراہم کرے۔ چیئرمین کمیٹی نے وزارت کے دستاویزی کام کی تعریف کی۔ اجلاس میں سینیٹر شہادت اعوان، سینیٹر کاظم علی شاہ، سینیٹر ضمیر حسین گھمرو، سینیٹر راجہ ناصر عباس، سیکرٹری وزارت سمندر پار پاکستانیز و ترقی انسانی وسائل سمیت متعلقہ محکموں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔