نامور دانشور، شاعرجمیل الدین عالی کی برسی کل منائی جائے گی

جمعہ 22 نومبر 2024 12:02

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 نومبر2024ء) ملک کے نامور دانشور، شاعر، مصنف، محقق جمیل الدین عالی کی نویں برسی کل 23نومبر بروزہفتہ کو منائی جائے گی۔جمیل الدین عالی پاکستان رائٹرز گلڈ کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ انجمن ترقی اردو سے ایک طویل عرصہ تک وابستہ اور اپنی انتہائی قابلیت سے ملک میں اردو زبان کی ترقی اور ترویج کیلئے کام کرتے رہے یہی وجہ ہے کہ اردو کیلئے ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

وہ پاکستان کے معروف اخبارات میں کئی دہائیوں تک باقاعدگی سے کالم لکھتے رہے جبکہ ان کی لکھی ہو ئی کتابوں میں اے میرے دشت سخن، جیوے جیوے پاکستان، لاحاصل، نئی کرن، دعا کر چلے اور صدا کر چلے شامل ہیں نیز ان کے مشہور سفر ناموں میں دنیا میرے آگے، تماشا میرے آگے، شنگھا ئی کی عورتیں، ایشین ڈرامہ، بس ایک گوشہ، مہر ماہ وطن، ا صلات بینکاری قابل ذکر ہیں اسی طرح ان کے دوہڑو ں نے بھی زبر دست شہرت حاصل کی۔

(جاری ہے)

وہ پاکستان میں دوہڑو ں کے خالق جانے جاتے ہیں۔ جمیل الدین عالی 20جنوری 1925کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد کراچی آگئے اور یہاں مستقل سکونت اختیار کر لی۔جمیل الدین عالی کا نصب علمی اور ادبی خانوادے سے تھا۔ان کے والد نوابزادہ امیر الدین خان مرزا غالب کے خانوادے جبکہ والدہ سیدہ جمیلہ بیگم خواجہ میر درد کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم اینگلو عر یبک سکول دریا گنج دہلی سے 1944 تک حاصل کی۔ انہوں نے1951میں سی ایس ایس،1961 میں یونیسکو شپ،1976 میں ایل ایل بی،1978 میں جامعہ کراچی سے ڈپلومہ کا رپوریٹ پلاننگ میں کیا۔صدر ایوب خان کے عہد میں پاکستان رائٹر ز گلڈ انہی کی کاوشوں سے وجود میں آئی۔جمیل الدین عالی بابائے اردو مولوی عبدالحق کے شاگرد اور ابن انشا سے لے کر قدرت اللہ شہاب تک کے رفیق کار رہے۔

جمیل الدین عالی نظمیں، دوہے، ملی نغمے اور گیت تحریر کرنے کے علاوہ ہزاروں اشعار پر مبنی ایک رزمیہ نظم" انسان"پر بھی کام کر رہے تھے۔جمیل الدین عالی کی شادی 30ستمبر 1944کو طیبہ بانو سے ہوئی۔مرحوم نے اردو ادب کیلئے گرانقدر خدمات سر انجام دیں۔ جمیل الدین عالی اپنی تحریروں اور شاعری میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔وہ 23نومبر2015کو 90برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے ۔