چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے جیل اصلاحات کادائرہ کار خیبرپختونخوا تک بڑھا دیا

جمعہ 22 نومبر 2024 21:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 نومبر2024ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے ایک منصفانہ اور مساوی فوجداری انصاف کے فریم ورک کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ جیل کا موثر نظام مساوی فوجداری انصاف کے فریم ورک کومستحکم بناتا ہے۔چیف جسٹس نے یہ بات جمعہ کوپشاور میں بلائے گئے مشاورتی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔

چیف جسٹس نے خیبرپختونخوا میں جیل انتظامیہ کو سراہتے ہوئے کہا کہ معمولی جرائم کے الزام میں 1,289 قیدیوں کو گزشتہ تین ماہ کے دوران جوڈیشل افسران کے زیر انتظام کیمپ کورٹس کے ذریعے رہا کیا گیا ۔ چیف جسٹس نے دیگر صوبوں پر زور دیا کہ وہ بھی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد میں کمی کیلئے اس طرح کے اقدامات کریں۔یہ مشاورتی اجلاس جامع قومی جیل اصلاحات پالیسی کی تشکیل کیلئے ملک گیر مشاورت کا تسلسل ہے جس کا چیف جسٹس آف پاکستان نے رواں ماہ لاہور اور اسلام آباد سے آغاز کیا۔

(جاری ہے)

پاکستان کے فوجداری انصاف کے نظام کو جدید بنانے کے لیے ایک وسیع حکمت عملی کے کلیدی اجزاء کے طور پر ایجنڈا جیلوں میں اصلاحات اور قیدیوں کی بہبود پر مرکوز تھا۔چیف جسٹس آف پشاور ہائیکورٹ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے صوبے میں سزا یافتہ مجرموں کے لیے بحالی کی سہولیات کی کمی کو اجاگر کرتے ہوئے معاشرے میں مجرموں کی بحالی کا ایک مضبوط نظام وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور ان قیدیوں کے لیے سزا میں معافی کی تجویز پیش کی جو اپنی قید کے دوران تعلیمی قابلیت حاصل کرتے ہیں۔

اجلاس میں لاء اینڈ جسٹس کمیشن آ ف پاکستان کی مجوزہ نیشنل جیل ریفارم پالیسی پر بھی توجہ مرکوز کی گئی جو بین الاقوامی معیارات بشمول نیلسن منڈیلا رولز، بنکاک رولز اور بیجنگ رولز کے مطابق ہے۔ اس پالیسی کا مقصد پورے پاکستان میں اصلاحی سہولیات کے انسانی اور بحالی کے انتظام کو یقینی بنانا ہے۔ شرکاء نے تجویز کی بھرپور حمایت کا اظہار کیا اور زیر سماعت قیدیوں کے لیے بحالی کے پروگراموں کی اہمیت پر بھی زور دیا۔

اجلاس میں جیل اصلاحات کمیٹی کے قیام کی سفارش کی گئی تاکہ قیدیوں کی بہبود اور کیس پروسیسنگ میں تاخیر جیسے اہم مسائل کو حل کیا جا سکے۔ ایک قومی کمیٹی کے لیے مجوزہ ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، زیر سماعت حراست کو کم کرنے، کیس کے انتظام کو بہتر بنانے اور بحالی کے جامع اقدامات کو نافذ کرنے پر بھی توجہ مرکوز کی گئی۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے صوبہ کے پی کے لیے ایک ذیلی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا، جس میں عائشہ بانو (کوآرڈینیٹر )، فضل شکور خان اور احمد کریم شامل ہیں۔ یہ ذیلی کمیٹی صوبے کی جیلوں میں قید مختلف کیٹیگریز کے قیدیوں کے حوالے سے موجودہ صورتحال پر رپورٹ مرتب کرے گی۔ اس ذیلی کمیٹی کی تیار کردہ رپورٹ نگرانی اور رہنمائی کے لیے جسٹس (ر) قلندر علی خان کو پیش کی جائے گی۔

اس رپورٹ کے نتائج ایک قومی جیل اصلاحات کی پالیسی بنانے میں معاون ہوں گے، جو تمام صوبوں سے موصول ہونے والے تاثرات پر مبنی ہوگی۔ذیلی کمیٹی کی ترجیحات میں زیر سماعت قیدیوں کی تعداد کو کم کرنے اور سزا کے متبادل اختیارات جیسے کمیونٹی سروس اور پروبیشن کو فروغ دینے کی سفارشات شامل ہوں گی۔ میٹنگ میں شرکاء نے جیل پر مبنی بحالی کے پروگراموں کوفروغ دینے کی اہمیت پر بھی زور دیا، جن میں پیشہ ورانہ تربیت، ذہنی صحت کی مدد اور تعلیمی اقدامات شامل ہیں تاکہ رہائی کے بعد قیدیوں کو معاشرے میں دوبارہ انضمام کی سہولت فراہم کی جا سکے۔

مزید یہ کہ صوبے میں فرانزک سائنس کی سہولیات کو اپ گریڈ کرنے پر بھی زور دیا گیا۔میٹنگ کے دیگر شرکاء میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم، جسٹس اعجاز انور خان، ایڈمنسٹریٹو/مانیٹرنگ جج برائے جیل خانہ جات پشاور ہائی کورٹ، سابق جج پشاور ہائی کورٹ جسٹس قلندر علی خان شامل تھے۔ کے پی کے ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل اتمان خیل، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ محمد عابد مجید اور محکمہ قبائلی امور کے پی اختر حیات خان، انسپکٹر جنرل کے پی پولیس محمد عثمان، انسپکٹر جنرل کے پی جیل خانہ جات محمد سلیم خان، رجسٹرار سپریم کورٹ آف پاکستان ،رجسٹرارپشاور ہائی کورٹ اور رفعت انعام بٹ سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان شامل تھے ۔

سیشن میں عائشہ بانو، سماجی کارکن اور ایکٹوسٹ کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا کے اراکین صوبائی اسمبلی نے بھی شرکت کی جن میں امجد علی، صوبائی وزیر ہائوسنگ، فضل شکور خان (ایم پی اے) اور احمد کریم کنڈی (ایم پی اے) شامل تھے ۔