سترھویں عالمی اردو کانفرنس ، ’’اردو نظم میں کراچی کا حصہ‘‘ کے عنوان پر گفتگو

جمعہ 6 دسمبر 2024 22:12

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 06 دسمبر2024ء)آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام سترھویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز پہلا سیشن "اردو نظم میں کراچی کا حصہ" کے عنوان سے منعقد ہوا جس کی نظامت سلمان ثروت نے کی جبکہ مقررین میں رخسانہ صبا، ڈاکٹر تنویر انجم، حارث خلیق اور فہیم شناس کاظمی نے قیام پاکستان کے بعد اردو نظم میں کراچی کے شعرائ کی طرف سے نمایاں کام اور نئے تجربات کے حوالے سے خیالات کا اظہار کیا، خاص طور پر پچاس، 60 اور 70 کی دہائی میں اردو نظم کی ترقی پر بات کی گئی۔

(جاری ہے)

رخسانہ صبا نے کہا کہ اس دور کی نظموں میں ہجرت اور اپنی جڑوں سے دور ہونے کا المیہ نمایاں نظر آتا ہے، انہوں نے جوش ملیح آبادی، مصطفی زیدی، جمیل الدین عالی، حمایت علی شاعر، محسن بھوپالی اور عزیز حامد مدنی کی نظموں کا حوالہ دیا، ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی نے کہا کہ پچاس کی دہائی کے دوران کراچی سے سامنے آنے والے شعراء کی نظم کی صنف میں کردار کے بارے میں کہا کہ سیاسی ابتری اور معاشی بحران کا یہ دور اردو ادب میں تلاطم اور ہجرت کے اثرات سے بھرپور تھا، اس عہد کی اہم شخصیت افتخار عارف اب بھی ہمارے درمیان ہیں، عزیز حامد مدنی، محب عارفی اور قمر جمیل کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی نظموں کو اس دور کی نمائندہ شاعری کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، ڈاکٹر تنویر انجم نے 60کی دہائی میں نظم کے حوالے سے کراچی کے حصے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت عالمی سطح پر ترقی پسندی سے آگے موجود صورتحال اور بڑھتے ہوئے اضطراب کا عکس نظر آتا ہے،اس دور کی نثری نظم علامتوں سے بھرپور ہے یہ پوسٹ ماڈرن شاعری ہے جس میں احمد ہمیش اور قمر جمیل نمایاں رہے، حارث خلیق نے کہا کہ اردو نظم ایک مکمل تہذیب کا اظہار ہے، ہمارے ہاں فکشن میں اتنا اعلیٰ سطح کا کام نہیں ہوا جتنا نظم کے شعبے میں ہوا ہے، آزاد اور نثری نظم اس دور میں عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کا مظہر رہی، ساقی فاروقی نے ایسے میں نئے موضوعات متعارف کرائے اور اچھوتے استعارے تخلیق کئے، کراچی کے شاعروں کی طرف سے نئے تجربات کی وجہ مختلف علاقوں سے آنے والے شعرائ بنے، کراچی سے سامنے آنے والی نظموں میں تازگی اور نیا پن محسوس ہوتا ہے۔

#