دیہی علاقوں میں اسکولوں کا قیام، تعلیم کا فروغ اور مدارس کی اہمیت کو تسلیم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے،سید ارشد علی کاظمی القادری

علی گڑھ تحریک نے صرف اشرافیہ کے لیے تعلیمی مواقع پیدا کیے اور دیہی و غریب مسلمانوں کو نظرانداز کیا، جو آج دیہی تعلیمی بحران کا سبب ہے،امیرتحریک اہلسنت سندھ

اتوار 12 جنوری 2025 17:50

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 جنوری2025ء) امیر تحریک اہل سنت پاکستان، صوبہ سندھ، سید ارشد علی کاظمی القادری نے ایک بیان میں پاکستان کے تعلیمی بحران پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق، ملک بھر میں 26 ملین سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں، جن میں اکثریت دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ شرحوں میں سے ایک ہے۔

یہ صورتحال اس بات کی غماز ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام ناکام ہو چکا ہے اور اس بحران کے حل کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ علی گڑھ تحریک سے قبل مدارس اس خطے میں تعلیم کا واحد ذریعہ تھے۔ یہ مدارس نہ صرف دینی تعلیم فراہم کرتے تھے بلکہ دنیاوی علوم، جیسے سائنس، فلسفہ، ریاضی، اور فنون لطیفہ میں بھی رہنمائی کرتے تھے۔

(جاری ہے)

مدارس کے فارغ التحصیل افراد نے مغلیہ دور میں وہ عظیم الشان عمارتیں اور قلعے تعمیر کیے جو آج دنیا بھر کے انجینئرنگ اور آرکیٹیکچر کے طلبا کے لیے تحقیق کا موضوع ہیں۔

ان مدارس نے ایک جامع تعلیمی نظام فراہم کیا تھا جو دینی اور دنیاوی دونوں پہلوں کو شامل کرتا تھا۔انہوں نے علی گڑھ تحریک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سر سید احمد خان نے مغربی طرز تعلیم کو فروغ دے کر مسلمانوں کو ان کے دینی نظام تعلیم سے دور کر دیا۔ ان کا یہ نظریہ کہ مسلمان جدیدیت کو اپنائے بغیر ترقی نہیں کر سکتے، اسلامی تعلیمات کے خلاف تھا۔

علی گڑھ تحریک نے مدارس کی افادیت کو نظرانداز کیا اور سیکولر تعلیم کو فروغ دیا، جس سے مسلم معاشرہ دینی تعلیمات سے کٹ گیا۔ سر سید احمد خان کا برطانوی حکومت کے ساتھ تعاون مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ ان کی پالیسیوں نے مسلمانوں کو سیاسی اور معاشرتی طور پر کمزور کیا۔علی گڑھ تحریک نے صرف اشرافیہ کے لیے تعلیمی مواقع پیدا کیے اور دیہی و غریب مسلمانوں کو نظرانداز کیا، جو آج دیہی تعلیمی بحران کا سبب ہے۔

علی گڑھ تحریک نے عربی اور فارسی علوم کو پیچھے چھوڑ کر مسلمانوں کو ان کی روایات سے دور کر دیا۔مزید برآں انہوں نے بین الاقوامی لڑکیوں کی تعلیم کانفرنس کے لیے ملال یوسف زئی کے پاکستان کے حالیہ دورے پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ملالہ یوسف زئی کو مغربی طاقتوں کا ایک اور ایجنٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جیسے سر سید احمد خان کو برطانوی حکومت نے مسلمانوں کے نظریے کو کمزور کرنے کے لیے لانچ کیا، ملالہ یوسف زئی اسی ایجنڈے کا دوسرا باب ہیں۔

ملالہ کو پاکستان کے دیہی علاقوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے پیش کیا جا رہا ہے، لیکن ان کا بیانیہ مغربی مفادات کی عکاسی کرتا ہے۔ ملالہ نے اپنی تقاریر میں ہمیشہ پاکستان کی کمزوریوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور اپنی قوم کے وقار کو مجروح کیا۔نا قابل قبول رول ماڈل: انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام ملالہ کو اپنا رول ماڈل کبھی تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ ہمارے رول ماڈل وہ لوگ ہیں جو اپنی قوم کی عزت اور وقار کے لیے کھڑے ہوتے ہیں جیسے اعلی حضرت احمد رضا خان بریلوی، مولانا سردار احمد چشتی، شاہ احمد نورانی صدیقی رحمہم اللہ، نہ کہ وہ جو مغرب کے ایجنڈے کی نمائندگی کریں۔