سرسید یونیورسٹی میں تاریخِ پاکستان کی تقریب اجرا کا کا انعقاد

تبدیلی بسااوقات وہاں سے آتی ہے جو آپ کے گمان میں نہیں ہوتا،ڈاکٹر اقبال محسن

پیر 13 جنوری 2025 22:41

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 جنوری2025ء)نظامی اکیڈمی کے زیرِ اہتمام سید قیام نظامی مرحوم کی تصنیف کردہ کتاب تاریخِ پاکستان۔چند حقائق جو منظرِ عام پر نہیں آئے کی تقریب اجرا کا انعقاد سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں کیا گیا جس کی صدارات اردو یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور ممتاز دانشور ڈاکٹر اقبال محسن کے ذمہ تھی جبکہ تقریب کی نظامت حامد اسلام خان نے کی۔

صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے ممتاز دانشور ڈاکٹر اقبال محسن نے کہا کہ ہم ناامیدی میں نہیں جی سکتے۔سرسید احمد خان اور قائداعظم دونوں قوم سے مایوس ہوگئے تھے اور کنارہ کشی اختیار کرلی تھی مگر بعد میں یہی دنوں شخصیات انقلابی تبدیلی لے کر آئیں۔۔آپ تبدیلی کا راستہ نہیں روک سکتے۔

(جاری ہے)

۔تبدیلی بسااوقات وہاں سے آتی ہے جو آپ کے گمان میں نہیں ہوتا۔

ہماری نسل ایک ناکام نسل ہے۔ہندوستان کی تقسیم کے بعد جب پہلی فلائیٹ پاکستان میں اتری تو ہم سوچ رہے تھے کہ لوگ جہاز سے اتر کر پاکستان کی سرزمین پر سجدہ ریز ہوں گے مگر وہ اپنے سامان کو تلاش کررہے تھے۔۔اور آج تک یہ قوم سامان کی تلاش میں ہے۔حقائق منظر عام پر آئے مگردبا دئے گئے، چھپا دیئے گئے یا مٹا دئے گئے۔ اس موقع پرشعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن کے چیئرپرسن ڈاکٹر عماد الحق نے سرسید یونیورسٹی کے چانسلر جاوید انوار کا پیغام پڑھ کر سنایا۔

چانسلر جاوید انوار نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ تاریخِ پاکستان اس خطہ کے سیاسی، سماجی،معاشی اور معاشرتی معاملات کو سمجھنے کے لئے ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ماضی کی بنیاد پر ہی مستقبل کی تعمیر کی جاتی ہے۔ اگر ہم ماضی کی غلطیوں سے اجتناب کرتے ہوئے دور ِ جدید کے مستعمل اور آزمودہ اسٹریٹیجک کمپوزیشن کو اپنا لیں تو ہمارا شمار بھی ترقی یافتہ قوموں میں ہوسکتا ہے۔

۔ یہی حکمتِ عملی سرسید احمد خان نے اپنائی تھی۔انھوں نے دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق مسلم قوم کو منظم کیا جس کا نتیجہ قیامِ پاکستان کی صورت میں سامنے آیا۔تاریخِ پاکستان ایک جامع اور معلوماتی کتاب ہے جو پاکستان کی تاریخ کے مختلف پہلوں پر روشنی ڈالتی ہے۔اس کتاب کو آرکائیوکا حصہ بننا چاہئے۔ ممتاز اسکالر و صحافی محمود شام نے اپنے آڈیو پیغام میں کہا کہ تاریخ پاکستان میں باقاعدہ حوالوں کے ساتھ واقعات بیان کئے گئے ہیں جس کی صحت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

اس میں وہ واقعات و حادثات درج ہیں جو ہماری پستی اور زوال کا سبب بنے۔ نظامی اکیڈمی کے چیئرمین احتشام ارشدنظامی نے کہا کہ مذکورہ کتاب کے مصنف کا رجحان تصوف کی جانب تھا مگر وہ ایک مورخ بھی تھے۔۔اور میری متواتر درخواست پر انہوں نے اپنی زندگی میں دو کتابیں تصنیف کیں۔دوسال قبل ہندوستان کی تاریخِ حکمرانی کی اشاعت ہوئی تھی اور اب تاریخِ پاکستان شائع ہوئی ہے۔

ہم علم و آگہی کے فروغ کے لیے کام کررہے ہیں۔تاریخ پاکستان ایک بہترین کتاب ہے جس میں برصغیر کی پوری تاریخ اکھٹی کی گئی ہے۔۔کتاب میں تاریخی حقائق کے علاوہ مصنف کے ذاتی تجربات اور مشاہدات بھی شامل ہیں۔یہ کہنا کہ بنگالیوں نے مسلم لیگ قائم کی حقیقت کے منافی ہے۔۔مسلم لیگ کا پہلا اجلاس بے شک ڈھاکہ میں خواجہ سلیم اللہ کے گھر پر منعقد ہوا لیکن ا س میں صرف بنگالی نہیں تھے بلکہ پنجاب، سرحد، بلوچستان، سندھ، یوپی، بہارو دیگر علاقوں کے لوگ بھی شامل تھے۔

نامور ادیبہ گل بانو نے کہا کہ دورِ قدیم سے انسان ارتقائی مراحل سے گزرتا آ رہا ہے۔تقسیم ہند کوئی عام بات نہیں تھی۔یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔تاریخ ِ پاکستان میں ایسے واقعات قلمبند کئے گئے ہیں جن سے ہم ناواقف تھے۔مشہور شاعر و ادیب سید معراج جامی نے کہا کہ تاریخ کا آغاز انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔تاریخ کے بغیر دنیا کا ہر علم ناکافی ہے۔

تاریخ دراصل مختلف سوانح عمری کا نچوڑ ہے۔ بعدا زاں ایک شعری نشست کا بھی اہتمام کیا گیا۔شعرا میں پروفیسر رضیہ سبحان، راشد حسین راشد (کینیڈا)، فیروز ناطق خسرو، سلمان صدیقی، نور سمیع نور، سید معراج جامی،سلمان صدیقی، عشرت معین سیما(جرمنی)، نجمہ عثمان (برطانیہ)، سحر علی و دیگر شامل تھے۔نظامت کے فرائض خالد پرویز صدیقی نے انجام دئے۔