گروپ 77 کی چیئرمین شپ کی عراق کو منتقلی، پاکستان نے ترقی پذیر ممالک میں قرضوں کے بحران کو اجاگر کیا

منگل 14 جنوری 2025 15:52

گروپ 77 کی چیئرمین شپ کی عراق کو منتقلی، پاکستان نے ترقی پذیر ممالک میں ..
اقوام متحدہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 جنوری2025ء) پاکستان نے اقوام متحدہ میں ترقی پذیر ممالک میں قرضوں کے بحران کو اجاگر کرتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلیوں اور معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے وسیع تر کوششوں کے حصے کے طور پر قرضوں سے نجات اور تنظیم نو پر زور دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے گزشتہ روز یوگنڈا کی طرف سے ترقی پزیر ممالک کے اتحاد گروپ آف 77 اور چائنا کی چیئرمین شپ عراق کو سونپنے کی تقریب کے دوران کہا کہ ہم اس لمحے میں ہیں جہاں ممالک کے درمیان اور اندرون ملک عدم مساوات بڑھ رہی ہے اور ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ 800 ملین سے زیادہ افراد انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔

پاکستانی مندوب منیر اکرم نے15 جون1964 میں قائم ہونے والے ترقی پذیر ممالک کے اتحاد پر مبنی گروپ جی ۔

(جاری ہے)

77 کی دو مرتبہ قیادت کی۔ جی 77 کے اس وقت 134 ارکان ہیں۔G-77 اقوام متحدہ میں ترقی پذیر ممالک کا سب سے بڑا بین الحکومتی اتحاد ہے، جو جنوب کے ممالک کو اپنے اجتماعی اقتصادی مفادات کو بیان کرنے اور فروغ دینے کے ذرائع فراہم کرتا ہے اور اقوام متحدہ کے نظام کے اندر تمام بڑے بین الاقوامی اقتصادی مسائل پر ان کی مشترکہ بات چیت کی صلاحیت کو بڑھاتا اور اور ترقی کے لیے جنوبی ممالک میں تعاون کو فروغ دیناہے۔

پاکستانی مندوب نے اقوام متحدہ میں اپنی نمایاں خدمات کے دوران 2007 اور 2021 میں گروپ کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دیں۔ پاکستانی مندوب منیر اکرم نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک ایسے وقت میں رہ رہے ہیں جب ترقی پزید ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونی والی تباہی کی لپیٹ میں ہے اور ماحولیاتی تبدیلیاں پورے کرہ ارض کے لئے ایک حقیقی چیلنج ہیں۔

اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش نے جی ۔77 کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 2025 ترقی پذیر ممالک کے ساتھ وعدوں کی پاسداری کا سال ہونا چاہیے۔ پاکستانی مندوب منیر اکرم نے اپنے ریمارکس میں پاکستان کی طرف سے عراق کو جی ۔77 کی چیئرمین شپ کی مبارکباد پیش کی اور G-77 کی قیادت کی مکمل حمایت کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ترقیاتی مالی معاونت کی فراہمی ،ترقی کے انجن کے طور پر تجارت کی بحالی،ٹیکنالوجی کے نظام کو پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز ) کے ساتھ ہم آہنگ کرنا اور ماحولیاتی اہداف ترقی پذیر ممالک کی اولین ترجیحات ہیں۔

اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ ایس ڈی جیز اور ماحولیاتی تبدیلی کے اقدامات کی فنانسنگ میں بالترتیب 4.3 ٹریلین ڈالر اور 1.5 ٹریلین ڈالر کا بڑا فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلوبل ساؤتھ کے ممالک کو آفیشل ڈویلپمنٹ اسسٹنس ( او ڈی اے ) کے وعدوں پر عمل درآمد کے لیے مالی امداد اور گرانٹ اور رعایتی فنانسنگ میں اضافے، قرضوں سے نجات اور تنظیم نو پر فوری اقدامات اور 2021 کے 50 فیصد مختص کردہ ایس ڈی آرز(سپیشل ڈرائنگ رائٹس ) کی ری چینلنگ کی ضرورت ہے۔

پاکستانی مندوب نے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے کے لیے تجارت کو گیم چینجر کے طور پر دیکھتے ہوئے تجارتی تحفظ پسندی کی تیاری کرتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کی برآمدات کے لیے رسائی کے نئے دروازے کھولنے پر زور دیا۔ انہوں نے ٹیکنالوجی کے نظام کو پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز ) اور آب و ہوا کے اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز خصوصی طور پر ٹیکنالوجیز جیسے کہ مصنوعی ذہانت جو عالمی معیشت اور درحقیقت بین الاقوامی تعلقات کو آگے بڑھانے والی ہے تک مساوی رسائی کی ضرورت ہےپاکستانی ایلچی نے اقوام متحدہ کے 2030 کے ایجنڈا، عدیس ابابا پلان، ایس ڈی جی سمٹ اور گزشتہ ستمبر میں مستقبل کے لیے طے پانے والے معاہدے میں ترقی پذیر ممالک سے کئے گئے وعدوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ وعدے صرف وعدے نہیں رہ سکتے۔ ان کو پورا کرنا ہوگا اور چوتھی ایف ایف ڈی کانفرنس میں ہمارا یہی ٹاسک ہوگا۔