پی ٹی آئی کومذاکرات ختم کرنے پہلے 28جنوری تک حکومتی فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے تھا

پی ٹی آئی نے مذاکرات ختم کرکے گیند خود اپنی کورٹ میں ڈال دی، مذاکرات کیلئے تمام ادارے بھی آن بورڈ تھے، مشاورت کیلئے 7ورکنگ ڈے پر پی ٹی آئی نے اتفاق کیا تھا، رہنماء پی ایم ایل ضیاء راجہ اعجاز الحق

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ جمعہ 24 جنوری 2025 21:47

پی ٹی آئی کومذاکرات ختم کرنے پہلے 28جنوری تک حکومتی فیصلے کا انتظار ..
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی پی اے ۔ 24 جنوری 2025ء ) رہنماء پی ایم ایل ضیاء راجہ اعجاز الحق نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کومذاکرات ختم کرنے پہلے 28 جنوری تک حکومتی فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے تھا،پی ٹی آئی نے مذاکرات ختم کرکے گیند خود اپنی کورٹ میں ڈال دی، مذاکرات کیلئے تمام ادارے بھی آن بورڈ تھے،مشاورت کیلئے 7 ورکنگ ڈے پر پی ٹی آئی نے اتفاق کیا تھا۔

انہوں نے اے آروائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بڑا دکھ ہے کہ مذاکرات کو ختم کردیا گیا ہے، اندرون بیرون ملک پاکستانیوں کو بڑی امیدیں تھیں کہ کوئی سیاسی استحکام کا راستہ نکل آئے گا ،پہلے خوشی کی بات یہ تھی کہ پی ٹی آئی روایت سے ہٹ کر پہل کی اور مذاکراتی کمیٹی بنائی، کمیٹی بنانے کے بعد اسپیکر سے کہا گیا کہ حکومت بھی مذاکراتی کمیٹی بنائے۔

(جاری ہے)

پھر حکومت نے دل بڑا کرکے تمام اتحادیوں کو کمیٹی میں ڈال دیا۔ جب حکومت رضامندی ظاہر کرتی ہے تو اس کا مطلب تھا کہ تمام ادارے بھی آن بورڈ تھے۔ پی ٹی آئی کوحکومت کا فیصلہ دیکھنے کیلئے 28 جنوری مزید تین دن انتظار کرنا چاہئے تھا، گیند حکومت کی کورٹ میں تھی لیکن پی ٹی آئی اپنی کورٹ بھی ڈال دی، تمام بندوقوں کا رخ اپنی طرف کرلیا۔ حکومت نے مشاورت کیلئے 7 ورکنگ ڈے مانگے تھے، جس پر پی ٹی آئی نے اتفاق کیا۔

میں نے تیسری میٹنگ میں پی ٹی آئی سے سوال کیا تھا کہ کیا آپ سپریم کورٹ کو ڈکٹیٹ کرسکتے ہیں کہ ہمیں جوڈیشل کمیشن کیلئے تین سینئر ججز چاہئیں؟ اسی طرح جو کیسز لوئر کورٹس میں ان پر کیسے سینئر ججز کے کمیشن کو بٹھایا جاسکتا ہے؟ دوسری جانب مرکزی رہنماء پی ٹی آئی اسد قیصر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے 28 جنوری کو مذاکراتی عمل میں شامل ہونے کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا،حکومت اگر کمیشن بنانے پر رضا مندہے تو پھر بانی سے مذاکرات کی بات کریں گے، یہ مطالبہ نہیں کیا کہ قیدیوں کو ایگزیکٹو آرڈر سے رہا کریں، یہ مطالبہ ہے کہ عدالتوں پر پریشر کو ختم کیا جائے۔