بلوچستان کے محکمہ مائنز اینڈ منرلز میں اربوں روپے کی سنگین مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف

کمیٹی کا وزیراعلیٰ ،چیف سیکرٹری سمیت دیگر حکام کو باقاعدہ طور پر شکایت درج کروانے کا فیصلہ

پیر 17 فروری 2025 19:50

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 فروری2025ء)پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) بلوچستان کا اجلاس کمیٹی روم، بلوچستان صوبائی اسمبلی میں چیئرمین اصغر علی ترین کی صدارت میں منعقد ہوا۔اجلاس میں کمیٹی کے اراکین، کے علاوہ سیکرٹری اسمبلی طاہر شاہ کاکڑ، اے جی بلوچستان نصراللہ جان، ڈی جی آڈٹ بلوچستان شجاع علی، ایڈیشنل سیکرٹری پی اے سی سراج لہڑی، چیف اکاؤنٹس آفیسر پی اے سی سید ادریس آغا، محکمہ قانون کے ایڈیشنل سیکرٹری مزمل زہری، محکمہ مائنز اینڈ منرلز اور محکمہ خزانہ کے افسران نے شرکت کی۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے محکمہ معدنیات اور کان کنی میں مالی بے ضابطگیوں اور بلوچستان کے جائز منافع اور رائلٹی کی عدم وصولی کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ۔

(جاری ہے)

اجلاس کو بتایا گیا کہ آئین کی 18ویں ترمیم (آرٹیکل 38 جی) کے تحت بلوچستان سیندک میٹلز لمیٹڈ (SML) کے خالص منافع کا 30 فیصد حصہ بلوچستان حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے۔ تاہم، محکمہ معدنیات کے ڈائریکٹر جنرل 2020-21 کے مالی سال میں 669.432 ملین روپے کی وصولی میں ناکام رہے۔

2020 سے پیٹرولیم ڈویژن نے SML کو بلوچستان حکومت کو ادائیگی روکنے کی ہدایت کی ہے۔جس پر زابد علی ریکی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ آغاز حقوق بلوچستان فیصلہ اور آئین کی خلاف ورزی ہے۔چیئرمین اصغر علی ترین نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اعلیٰ سطح پر احتجاج کریں گے اور بلوچستان کے حقوق کے لیے لڑیں گے۔کمیٹی ممبران نے اس معاملے پر ایک خصوصی اجلاس بلانے اور چیف سیکرٹری و وزیر اعلیٰ کو باضابطہ شکایت بھیجنے کا بھی فیصلہ کیا ۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ 2010 سے اب تک بلوچستان کو صرف 5.6 ارب روپے ملے ہیں، جبکہ وفاقی حکومت کو 8.5 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔مائننگ رائلٹی اور کرایہ کی مد میں بلوچستان منرلز کنسیشن رولز 2002 کے قاعدہ 104 کے تحت کان کنی کی کمپنیوں پر لازم ہے کہ وہ ہر چھ ماہ بعد رائلٹی اور کرایہ ادا کریں مگر 2019 سے 2022 کے دوران محکمہ معدنیات 395.918 ملین روپے کی وصولی میں ناکام رہا۔

2019-2022 کے مسلسل آڈٹ رپورٹس میں اس مسئلے کو اجاگر کیا گیا، لیکن کوئی اصلاحی اقدام نہیں لیا گیا۔محکمے نے مؤقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ نے ان کے خلاف فیصلہ دیا تھا، لیکن PAC نے محکمے کی قانونی کمزوری پر سخت تنقید کی۔کمیٹی نے ہدایت دی کہ یہ معاملہ دوبارہ کابینہ میں لے جایا جائے اور منظوری حاصل کی جائے۔پبلک اکاونٹس کمیٹی نے معاملے پر فالو اپ اجلاس کا فیصلہ کیا اور اعلان کیا کہ ذمہ داران، چاہے وہ ریٹائرڈ ہی کیوں نہ ہوں، ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

کمیٹی کے رکن زابد علی ریکی نے کہا کہ مائننگ کمپنیاں اربوں روپے کما رہی ہیں، لیکن بلوچستان کے عوام آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔کمیٹی نے ہدایت کی کہ ڈی جی سیمنٹ سے 12 ملین روپے 15 دن کے اندر ،ٹھیکیداروں سے 228.715 ملین روپے ایک ماہ کے اندر وصول کیے جائیں۔کمیٹی میں محکمہ معدنیات کے مالی سال 2021-22 کے بجٹ کے انتظام میں سنگین غلطیوں کا انکشاف بھی ہوا۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ نان ڈیولپمنٹ بجٹ: اصل بجٹ 3,767.319 ملین روپے تھا، جس میں بعد میں 631.430 ملین روپے کا اضافہ کیا گیا، لیکن 915.527 ملین روپے واپس کر دیے گئے، جس کے بعد حتمی بجٹ 4,398.749 ملین روپے رہا۔ خرچ 3,118.969 ملین روپے ہوا، اور 1,279.780 ملین روپے (29.09%) غیر استعمال شدہ رہ گئے۔ڈیولپمنٹ بجٹ کا اصل مختص شدہ بجٹ 1,496.368 ملین روپے تھا، لیکن کمی کر کے 166.291 ملین روپے کر دیا گیا۔

خرچ 164.109 ملین روپے ہوا، اور 2.182 ملین روپے غیر استعمال رہے ۔محکمے کا مجموعی بجٹ 5,263.687 ملین روپے میں سے صرف 3,283.078 ملین روپے خرچ کیے گئے، جس کے نتیجے میں 28.08% بجٹ بچت ہوئی۔جبکہ محکمہ کے سیکرٹری اور ڈی جی اس بارے میں لاعلم تھے۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بار بار فنڈز واپس کیے جانے پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے آئین کی خلاف ورزی قرار دیا۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے تمام مائننگ معاہدوں تک رسائی کا مطالبہ بھی کیا۔

چیئرمین نے کہا کہ محکمہ معدنیات کے پاس انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم نہ ہونا ایک سنگین ناکامی ہے۔پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کو ہدایت دی گئی کہ محکمہ معدنیات کے لیے IT سسٹم کے قیام کے لیے بجٹ مختص کیا جائے۔پبلک اکاونٹس کمیٹی نے کہا کہ بلوچستان کی ترقی اس محکمے کی درست کارکردگی سے جڑی ہوئی ہے۔ اجلاس میںمحکمہ خزانہ کی تاخیر سے جوابدہی پر سخت تنقید کی گئی اور آئندہ سخت کارروائی کا عندیہ دیا گیا جبکہ غیر مجاز بجٹ اجرا کو اسمبلی قوانین اور حکومتی نظام کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔کمیٹی نے اعلان کیا کہ وہ مالیاتی نظم و ضبط یقینی بنانے، بلوچستان کے جائز حقوق واپس لینے اور بدانتظامی و غفلت کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گی۔