ارم فاطمہ ترک کی انتھک محنت سے پھرہاری میں متنازعہ لیز روک دی گئی

یہ زمین صرف پھرہاری کے عوام کی نہیں بلکہ ہری پور کے ضمیر کی آواز ہے، جدوجہد کو جاری رکھا جائیگا،ارم فاطمہ ترک

جمعہ 7 مارچ 2025 17:43

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 مارچ2025ء) پیپلزپارٹی کی رہنما ارم فاطمہ ترک اور اہلیان پھرہاری ہری پور کی محنت اور جدوجہد کے نتیجے میں 800 کنال زمین پر دی جانے والی متنازعہ لیز کے خلاف بڑی کامیابی حاصل کرلی گئی۔ ڈپٹی کمشنر ہری پور نے فوری طور پر دفعہ 144 نافذ کر دی جس کے تحت نہ تو کوئی تعمیراتی کام شروع ہو سکتا ہے، نہ پولیس زبردستی کر سکتی ہے اور نہ ہی کوئی ٹھیکیدار یا مشینری وہاں تعینات کی جا سکتی ہے۔

محکمہ ماحولیات کی جانب سے بھی این او سی جاری نہ ہونے کی تصدیق کی گئی ہے جس سے یہ منصوبہ غیرقانونی قرار پاتا ہے۔یہ کامیابی عوامی طاقت اور اجتماعی جدوجہد کا واضح ثبوت ہے تاہم یہ تحریک ابھی ختم نہیں ہوئی اور پھرہاری کے عوام اپنی زمین، پانی، ماحول اور آنے والی نسلوں کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔

(جاری ہے)

ہری پور کے ڈپٹی کمشنر آفس کے سامنے ہونے والے احتجاج میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی، جہاں انہوں نے یہ واضح پیغام دیا کہ ان کی زمین کسی بھی غیرمنصفانہ فیصلے کی نذر نہیں ہو سکتی۔

احتجاج میں سیاسی و سماجی رہنماو?ں، صحافیوں، بزرگوں، خواتین اور نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود تھی، جنہوں نے متفقہ طور پر اس غیرقانونی لیز کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما ارم فاطمہ ترک نے نمایاں کردار ادا کیا اور عوامی حقوق کے لیے اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ زمین صرف پھرہاری کے عوام کی نہیں بلکہ ہری پور کے ضمیر کی آواز ہے، اور اس جدوجہد کو ہر سطح پر جاری رکھا جائے گا۔

احتجاج میں دیگر سیاسی و سماجی شخصیات بھی شریک ہوئیں، جن میں سابق وزیر قاضی محمد اسد، قومی وطن پارٹی کی ڈاکٹر فائزہ رشید، پیپلز پارٹی کے جہانزیب خان تنولی، ذوالفقار قریشی، جاوید اقبال، عوامی نیشنل پارٹی کے مسعود مشوانی، پاکستان مسلم لیگ ن کے عظمت اعوان، صدر ینگ تاجر گروپ ملک وجاہت محبوب اعوان، تحریک صوبہ ہزارہ کے عبدالصبور قریشی اور دیگر شامل تھے۔پھرہاری کے عوام نے اس کامیابی کو اپنی جیت قرار دیا اور عزم ظاہر کیا کہ وہ اپنی زمین کے تحفظ کے لیے ہر قانونی اور سماجی محاذ پر جدوجہد جاری رکھیں گے۔ یہ معاملہ اب اعلیٰ حکام، صدر پاکستان، اقوامِ متحدہ، ماحولیاتی اداروں اور عدالتی سطح پر اٹھایا جائے گا تاکہ اس متنازعہ منصوبے کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکے۔