اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 مارچ 2025ء) سن 2021 میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے طالبان نے ایسے ''سخت قوانین‘‘ نافذ کیے ہیں، جو سن 1996 سے 2001 تک کے، ان کے گزشتہ دور کی یاد دلاتے ہیں۔ اگرچہ خواتین کے لیے جسم اور چہرے کو ڈھانپنا اب بھی لازمی ہے، لیکن مذہبی پولیس کے ''سخت ضابطوں‘‘ میں روایتی برقعے کا خاص طور پر ذکر نہیں کیا گیا۔
اس لیے نوجوان خواتین خلیجی ممالک کے فیشن کو اپنا رہی ہیں۔ بہت سی خواتین عبایا پسند کرتی ہیں، جو حجاب اور اکثر چہرے کے نقاب کے ساتھ پہنا جاتا ہے۔دارالحکومت کابل کی 23 سالہ تہمینہ عادل کے مطابق، ''نئی نسل کبھی بھی برقعہ قبول نہیں کرے گی اور ایسا اس کے ڈیزائن اور رنگ کی وجہ سے ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''سوشل میڈیا کی وجہ سے ہر کوئی نئے رجحانات کو فالو کرتا ہے۔
(جاری ہے)
تہمینہ کو طالبان کی تعلیمی پابندیوں کی وجہ سے اپنی اکنامکس کی ڈگری چھوڑنا پڑی۔ انہوں نے مزید کہا، ''میں عبایا پہننا پسند کرتی ہوں کیونکہ اس میں مجھے سہولت ہوتی ہے۔‘‘
کابل اور شمالی شہر مزار شریف کی نوجوان خواتین کا کہنا ہے کہ عبایا اور حجاب روایتی برقعے کے مقابلے میں رنگ، مواد اور ڈیزائن میں زیادہ آزادی فراہم کرتے ہیں۔
مزار شریف میں ایک ورکشاپ میں برقعے پر کڑھائی کرنے والی رضیہ خالق کہتی ہیں، ''صرف بزرگ خواتین ہی زیادہ تر برقعہ پہنتی ہیں۔‘‘افغانستان: اگر برقعہ نہیں تو پھر ٹیکسی بھی نہیں ملے گی
رضیہ خالق نے خود 13 سال کی عمر سے ہی اپنی ماں اور دادی کی طرح برقعہ پہننا شروع کر دیا تھا لیکن ان کی 20 سالہ بیٹی عبایا کو ترجیح دیتی ہیں۔
انہوں نے کہا، ''نوجوان لڑکیاں عبایا اس لیے پہنتی ہیں کیونکہ یہ زیادہ آرام دہ ہے۔‘‘برقعہ کی تاریخ اور تبدیلی
افغانستان میں برقعے کی جڑیں گہری ہیں۔ طالبان کے پہلے دور (1996-2001) میں اسے سختی سے نافذ کیا گیا اور برقعہ نہ پہننے پر بعض خواتین کو عوامی سطح پر کوڑے بھی مارے گئے۔ لیکن بعدازاں غیر ملکی حمایت یافتہ حکومت کے دور میں عبایا اور حجاب کا رجحان بڑھا۔
سن 2021 میں کابل پر دوبارہ قبضے کے وقت طالبان نے اپنے اُس پہلے دور سے زیادہ لچک دکھانے کا وعدہ کیا تھا، جب خواتین سے تقریباً ''تمام حقوق ہی چھین‘‘ لیے گئے تھے۔ تاہم اب بھی انہوں نے آہستہ آہستہ خواتین کی عوامی زندگی کو انتہائی محدود بنا دیا ہے، جسے اقوام متحدہ نے ''جنسی امتیاز‘‘ قرار دیا ہے۔
شہری خواتین کے عام ڈھیلے حجاب پر پابندی عائد کر دی گئی۔
ایسے بل بورڈز لگائے گئے، جن میں خواتین کو دوبارہ برقعہ، عبایا، حجاب اور چہرے کے نقاب کے احکامات دیے گئے۔ گزشتہ برس اگست میں ایک مذہبی پولیس نے اس قانون کی تصدیق کی تھی، جس کے تحت مردوں اور خواتین پر نئی پابندیاں عائد کی گئیں تھیں۔ اس کے مطابق خواتین ''ضرورت کے تحت‘‘ گھر سے باہر جا سکتی ہیں لیکن ان کے لیے خود کو ڈھانپنا لازمی ہے۔ افغانستان کی اخلاقی پولیس کے ترجمان سیف الاسلام خیبر کا کہنا ہے، ''برقعہ ہو یا حجاب، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘40 سالہ نسیمہ کا اصرار کرتے ہوئے کہنا تھا، ''چہرہ دکھانا گناہ ہے‘‘، لیکن انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ کبھی کبھار ''دَم گھونٹ دینے والے‘‘برقعے سے نجات کے لیے عبایا یا حجاب پہنتی ہیں۔
طالبان کا دباؤ اور مزاحمت
22 سالہ نیہا (مکمل نام ظاہر نہیں کیا گیا) نے بتایا کہ سرکاری عمارتوں میں، جہاں طالبان کی سکیورٹی فورسز تعینات ہیں، انہیں برقعہ نہ پہننے پر ڈانٹ پڑتی ہے۔
حجاب کو درست کرنے یا میڈیکل ماسک لگانے کا حکم ملنا عام ہے۔ انہوں نے کہا، ''دفاتر میں داخل ہوتے ہی ہمارے ساتھ بدسلوکی شروع ہو جاتی ہے۔‘‘پشتون ثقافت کے ماہر حیات اللہ رفیقی بتاتے ہیں کہ طالبان کے پہلے دور میں روایتی برقعہ ''سختی سے نافذ‘‘ تھا اور نہ پہننے پر خواتین کو ''کوڑے مارے جاتے تھے، لیکن آج اس کا استعمال کم ہو گیا ہے۔
‘‘برقعے صوبوں کے لحاظ سے نیلے، ہلکے بھورے، سبز اور گلابی رنگوں میں ملتے ہیں۔
کابل میں گزشتہ 40 برسوں سے برقعے بیچنے والے گل محمد نے بتایا کہ اب بہت سے برقعے چین سے آتے ہی۔ ان کے مطابق یہ کاٹن کی بجائے پولیسٹرکے بنے ہوتے ہیں، جو سستے اور مضبوط تو ہیں لیکن سانس لینے کے حوالے سے آرام دہ نہیں۔ انہوں نے مزید بتایا، ''چینی برقعہ سردیوں میں ٹھنڈا اور گرمیوں میں آگ جیسا ہوتا ہے، جس سے خواتین کو بہت پسینہ آتا ہے۔
‘‘طالبان کے گڑھ سمجھے جانے والے قندھار کی 23 سالہ سبرینہ کے لیے برقعہ زندگی کو مشکل بناتا ہے اور یہ نہ پہننے پر انہیں بار بار تنبیہ کی جاتی ہے۔ سن 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے پہلی بار برقعہ پہنا، جو ان کا انتخاب نہیں تھا۔ وہ کہتی ہیں، ''میں راستہ نہیں دیکھ سکتی تھی، معلوم نہیں تھا کہ دائیں جاؤں یا بائیں۔ یہ بہت عجیب تھا۔‘‘
ا ا/ا ب ا (اے ایف پی)