پارلیمانی میٹنگ میں ن لیگ نے ٹی ٹی پی جنگجوؤں کوواپس لانے کی بالکل مخالفت نہیں کی تھی

ری سیٹلمنٹ کی پالیسی پی ٹی آئی دور میں بنی لیکن عملدرآمد شہبازشریف کی حکومت میں ہوا تھا، شہبازشریف کووزیراعظم بنتے ہی آواز اٹھانی چاہیئے تھی، سابق وزیر اسد عمر

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ جمعرات 27 مارچ 2025 21:41

پارلیمانی میٹنگ میں ن لیگ نے ٹی ٹی پی جنگجوؤں کوواپس لانے کی بالکل مخالفت ..
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی پی اے ۔ 27 مارچ 2025ء ) سابق وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے کہ پارلیمانی میٹنگ میں ن لیگ نے ٹی ٹی پی جنگجوؤں کوواپس لانے کی بالکل مخالفت نہیں کی تھی،پالیسی پی ٹی آئی دور میں بنی لیکن عملدرآمد شہبازشریف کی حکومت میں ہوا تھا، شہبازشریف کو وزیراعظم بنتے ہی آواز اٹھانی چاہیئے تھی، جنگجوؤں کو واپس لانے کیلئے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر تھی۔

ہم نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آتا تب تک معاشی استحکام ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔ کے پی اور بلوچستان کے اس حالات ہیں اور جو دہشتگردی کی وہاں ہورہی ہے، اس میں تفریق کروں گا، خیبرپختونخواہ میں ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جن کی عوام میں روٹس ہیں، عوام اور ریاست کے درمیان جو رشتہ باندھتے ہیں وہ لیڈرز اور سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔

(جاری ہے)

اس کے برعکس بلوچستان کی صورتحال ہونے میں ایک طویل عرصہ شامل ہے، وہاں صرف اقتدار کی بات ہوتی رہی، وہاں عوام کے ساتھ لیڈرز کا کوئی سیاسی رشتہ نہیں ہے۔ایسی صورتحال نہیں ہے کہ پی ٹی آئی دہشتگردی کو دہشتگردی اور دہشتگردوں کو دہشتگرد نہیں مانتی، پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ دہشتگردی کے مسئلے کا حل افغان طالبان کی معاونت کے بغیر ممکن نہیں۔

اسد عمر نے کہا کہ طالبان کو واپس لانے کی پالیسی اس وقت کی سیاسی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی تھی، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر تھی، ڈی جی آئی نے بریفنگ دی تھی اور آرمی چیف سوالات کے جوابات دینے کیلئے بیٹھے ہوئے تھے۔ اتفاق رائے تھا کہ ان کے ساتھ کب تک لڑتے رہیں گے ، 5 ، 6 ہزار جنگجو تھے اور ان کے خاندان کے لوگ ملا کر 35ہزار تک بنتے ہیں، ری سیٹلمنٹ کی گئی تھی کہ یہ ہتھیار رکھ دیں اور پاکستان کے آئین کو تسلیم کرلیں۔

پارلیمانی میٹنگ میں مسلم لیگ ن کی جانب سے ایک آواز بھی افغان جنگجوؤں کوواپس لانے کیخلاف سننے کو نہیں ملی تھی، ایک دو اپوزیشن رہنماؤں نے کہا تھا کہ حکمت عملی پر غور کیا جائے۔اس پالیسی پر عملدرآمد وزیراعظم شہبازشریف کی حکومت میں ہوا تھا، یہ پالیسی 2021 کے آخری ہفتوں میں بنی اور مارچ 2022میں تحریک عدم اعتماد آجاتی ہے، اس پالیسی کیخلاف شہبازشریف کو وزیراعظم بنتے ہی آواز اٹھانی چاہیئے تھی۔