بھارتی حکومت مسلمانوں کی اربوں ڈالر کی وقف جائیدادیں ہڑپ کرنا چاہتی ہے ،الجزیرہ کی رپورٹ

اتوار 30 مارچ 2025 13:50

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 30 مارچ2025ء) بھارت کے شہر اجین میں جنوری میں حکام نے تقریبا 250جائیدادیں جن میں گھر، دکانیں اور ایک صدی پرانی مسجد شامل تھی، مسمار کر دیے تاکہ5.27ایکڑزمین کو خالی کیا جا سکے۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق مذکورہ زمین مدھیہ پردیش وقف بورڈ کی ملکیت ہے تاہم حکومت نے مہاکال کوریڈور منصوبے کے لیے اس پر قبضہ کرلیا۔

بھارت میں وقف املاک کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے جن کی تعداد8لاکھ 72ہزارسے زائد ہے اور یہ تقریبا 4 لاکھ 5ہزارہیکٹریعنی 10لاکھ ایکڑپر پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کی مالیت تقریبا 14.22ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔ وقف بورڈز کو ملک کے سب سے بڑے شہری زمین مالکان میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ مجموعی طور پر یہ فوج اور ریلوے کے بعد تیسرے نمبر پر ہیں۔

(جاری ہے)

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی پارلیمنٹ میں وقف قانون میں ترمیم پر بحث متوقع ہے جس کے تحت حکومت کو ان جائیدادوں پر پہلے سے زیادہ کنٹرول حاصل ہو سکتا ہے۔

مسلمانوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ مودی حکومت وقف املاک کو اپنے کنٹرول میں لے کر مسلم اقلیت کا مزید استحصال کرنا چاہتی ہے۔مدھیہ پردیش کی ریاست زیادہ تر بی جے پی کے کنٹرول میں رہی ہے۔ 2023میںبی جے پی وزیر اعلی موہن یادو نے 2028کے کمبھ میلے کی تیاریوں کے تحت وقف املاک پر قبضہ کیا تاکہ ہندو یاتریوں کے لیے جگہ بنائی جا سکے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے 1985 کے سرکاری دستاویزات کو نظر انداز کر دیا جن میں واضح ہے کہ اجین کی زمین ایک مسلم قبرستان تھی جہاں ایک تاریخی مسجد بھی موجود تھی۔حکومت نے 3.8ملین ڈالر کی رقم ان افراد کو معاوضے کے طور پر ادا کی جن کے گھر اور دکانیں مسمار ہوئیں لیکن وقف بورڈ نے نہ تو اس زمین پر اپنا حق جتایا اور نہ ہی عدالت میں کوئی مقدمہ دائر کیا۔

مدھیہ پردیش کے وقف بورڈ کے چیئرمین اور بی جے پی رہنما ثناور پٹیل نے کہا کہ وہ پارٹی کے حکم کے مطابق عمل کریں گے کیونکہ وہ اسی کی بدولت اپنے عہدے پر ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ وقف املاک کے انتظام میں ہمیشہ بدنظمی اور کرپشن رہی ہے جس کی وجہ سے حکومتی افسران اور نجی قابضین ان پر غیر قانونی قبضہ کرتے رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش وقف بورڈ نے 1960اور 1980 کی دہائی میں اپنے املاک کا سروے کیا، تاہم سرکاری محکمے نے ان کے ریکارڈ کو اپ ڈیٹ نہیں کیا۔

دیگر ریاستوں میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے جہاں وقف کی ہزاروں جائیدادیں یا تو سرکاری قبضے میں چلی گئی ہیں یا پھر بااثر افراد کے کنٹرول میں ہیں۔ بی جے پی حکومت نے ایک این جی او کو 2021میں بھوپال میں ایک وقف قبرستان پر قبضے کی اجازت دی جس کے بعد وہاں ایک کمیونٹی ہال تعمیر کیا گیا۔ مقامی مسلم آبادی کے احتجاج کے خدشے کے پیش نظر حکومت نے علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایک منظم طریقے سے وقف املاک پر قبضہ کیا ہے اور مجوزہ ترامیم کے ذریعے وہ قانونی طور پر ان پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وقف زمینوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث حکومت نے ان جائیدادوں پر نظریں جما لی ہیں اور نئی قانون سازی کے ذریعے ان پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔