پاکستانی خواتین کی کاروباری دنیا میں کامیاب سفر منفرد کہانیاں

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 4 اپریل 2025 20:00

پاکستانی خواتین کی کاروباری دنیا میں کامیاب سفر منفرد کہانیاں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 اپریل 2025ء) عام طور پرپاکستان کی زیادہ تر خواتین کاروبار کا آغاز کرتے وقت بے شمار مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرتی ہیں مگر وہ پیچھے نہیں ہٹتیں۔ ان کا یہ سفر مشکل میں پڑ جاتا ہے، جب انہیں سرمایہ کاری کی کمی یا گھریلو مسائل اور معاشرتی توقعات جیسے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں وہ گھر کی دیکھ بھال کو ترجیح دیتی ہیں، جس سے ان کے ارادے کمزور پڑنے لگتے ہیں اور کاروباری سفر مشکل بن جاتا ہے۔

ان وجوہات کی بنا پر زیادہ ترخواتین اپنے کاروبار کا آغاز چھوٹے پیمانے پر کرتی ہیں، جیسا گھریلو دستکاری، کیک بنانا، بیوٹی سروسز یا آن لائن کاروبار وغیرہ۔ درحقیقت کاروبار کو شروع کرنے اور بڑھانے کے لیے درکار مالی معاونت تک رسائی ان کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے، کیونکہ مالی معاونت کے ادارے خواتین کو قرض دینے میں ہچکچاتے ہیں، جب تک کہ کوئی مرد ضامن نہ ہو۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ کچھ علاقوں میں خواتین کی نقل و حرکت پر پابندیاں ہیں، جو مارکیٹ تک پہنچنے اور سپلائیرز سے سامان خریدنے میں دشواریاں پیدا کرتی ہیں۔ پھر بھی پاکستانی کاروباری خواتین کے حوصلے اورعزم قابلِ ستائش ہیں۔ کاروبار سے منسلک تمام مشکلات سے نبٹنے کے لیے وہ خود سیکھتی ہیں، دوسری کاروباری خواتین کے ساتھ نیٹ ورکنگ اور مائیکرو فنانس اداروں اور فورمز پر اپنے روابط قائم کرتی ہیں۔

ڈیجیٹل تعلیم میں اضافہ اور حکومت کی طرف سے خواتین کی اقتصادی شرکت کو فروغ دینے والے اقدامات کے ساتھ، ایک بڑھتی ہوئی تعداد میں خواتین معاشرتی رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے کامیاب کاروباری خواتین بن رہی ہیں۔

افشاں خان: استاد سے کامیاب بزنس وومن تک کا سفر

افشاں خان، خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں ایک نجی اسکول میں بطور استاد کام کرتی رہی ہیں۔

وہ ایک گھریلو ورکنگ وومن ہیں، جنہوں نے اپنے گھر سے پیکجنگ کا کاروبار شروع کیا اور بعد میں انڈسٹریل ایریا میں ایک فیکٹری قائم کی اورکچھ ملازمین بھرتی کیے۔

انہوں نے بتایا، ''کاروبار کو بڑھانے کے لیے میں نے اپنی شادی کے زیورات بیچے اور اپنی بچت سے ایک فیکٹری کھولی۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر اور گھر والوں کی حمایت ان کے ساتھ ہے لیکن وہ اکیلی ہی اس مقام تک پہنچی ہیں اور امید کرتی ہیں کہ ان کے کاروبار سے نہ صرف ان کی بلکہ گھر والوں کی زندگی میں بھی بہتری آئے گی۔

وہ کہتی ہیں، ''میری خواہش تھی، میرے بچے اس بات پر فخر محسوس کریں کہ ان کی ماں ایک کامیاب بزنس وومن ہے۔‘‘

سبیکہ کی وراثتی بیکری اور ماضی کے ذائقوں کی جدید پیشکش

اسلام آباد میں سبیکہ نے اپنی نانی اور والدہ کے خاندانی کھانا پکانے کے ہنرکو کاروباری شکل دی۔ انہوں نے بیکری کھولی جہاں وہ نہ صرف روایتی پاکستانی میٹھائیاں بلکہ جدید قسم کے کیک اور پیسٹریز بھی تیار کرتی ہیں۔

وہ اپنی نو سالہ بیٹی کو بھی اس کاروبار میں شامل کرکے نہ صرف ہنر سکھا رہی ہیں بلکہ خاندانی ورثہ کو بھی زندہ رکھ رہی ہیں۔ سبیکہ نے بتایا، ''شادی سے پہلے میں اپنی نانی اور ماں کے ساتھ گھر میں مصالحے بنانے اور بیکنگ کا کام کرتی تھی، بیٹی کی پیدائش کے وقت مجھے لگا کہ میں یہ کام جاری نہیں رکھ پاؤں گی، مگر میں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔

نئے دور کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے کام میں کچھ جدت دکھائی، جسے بعد میں بہت سراہا گیا۔ میں چاہتی ہوں کہ میری بیٹی بھی میری طرح اس کاروبار کو اپنی وراثت کے طور پر لے کر چلے۔‘‘

ایمان خان کا ماحول دوست تعمیراتی منصوبہ

خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ کی 28 سالہ ایمان خان نے پلاسٹک کی بوتلوں کو بطور اینٹ استعمال کر کے تعمیراتی شعبے میں انقلاب برپا کیا۔

انہوں نے ان بوتلوں کو ریت سے بھر کر سستے اور ماحول دوست گھروں کی تعمیر میں استعمال کیا، جس سے سیلاب زدہ علاقوں میں رہائشی سہولتیں فراہم کرنے میں مدد ملی۔

ایمان کا یہ منصوبہ نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی توجہ کا مرکز بنا۔ ایمان نے بتایا، ''میں نے کلائمیٹ چینج میں اپنی پڑھائی مکمل کی اور اس کاروبار کا آغاز کیا۔

مگر مجھے کچھ مالی معاونت کی ضرورت تھی، پچھلے سال مجھے امریکی ایمبیسی کے کاروباری خواتین کے پروگرام میں شرکت کا موقع ملا اور میرا یہ آئیڈیا سرِفہرست ہونے کی وجہ سے فنڈنگ سے نوازا گیا، جس سے میں نے بیرونِ ملک سے پلاسٹک بوتلوں کی کرشنگ مشین خرید کر اپنے کاروبار کو مزید بڑھایا۔‘‘

رحمہ ریاض خیبر پختونخوا کے شہر پشاور سے تعلق رکھتی ہیں اور اسمال اینڈ میڈیم انٹر پرائز ڈویلپمنٹ اتھارٹی (SMEDA) میں بطور بزنس ٹرینر اور کوآرڈینیٹر کام کر رہی ہیں۔

انہوں نے ، نے بتایا، ''جب میں ٹریننگ کرواتی ہوں تو خواتین کے ذہن میں کئی طرح کے سوالات اور پیچیدگیاں ہوتی ہیں اور وہ ڈر رہی ہوتی ہیں کہ شاید انہیں گھر سے اور حکومت کی جانب سے کوئی سپورٹ میسر نہیں ہو سکے گی، مگر اس سب کے باجود وہ اپنے لیے خود راستے بھی تلاش کرتی ہیں اور پیچھے نہیں ہٹتی جو کسی بھی کاروبار کے لیے سب سے اہم بات ہے۔‘‘

رحمہ کا کہنا ہے کہ افشاں، ایمان اور سبیکہ جیسی خواتین جدت، ہمت اور کامیابی کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں، ''اور ہم یہ جانتے ہیں کہ مشکل سفر کے لیے ہمت، حوصلے اور اپنوں کا ساتھ ضروری ہوتا ہے۔‘‘