بجلی کی قیمتوں میں 7 روپے فی یونٹ کی کمی کو سراہتے ہیں تاہم اسے صنعتی برادری کے لئے ایک ناکافی اقدام قرار دیتے ہیں، سلیم میمن

2022ء میں صنعتی بجلی کی اوسط قیمت 18 روپے فی یونٹ تھی جسے بتدریج بڑھاتے ہوئے اپریل 2025 میں 48 روپے فی یونٹ تک پہنچا دیا گیا

ہفتہ 5 اپریل 2025 22:10

بجلی کی قیمتوں میں 7 روپے فی یونٹ کی کمی کو سراہتے ہیں تاہم اسے صنعتی ..
حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 اپریل2025ء) حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد سلیم میمن نے حکومت پاکستان کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں 7 روپے فی یونٹ کی کمی کو سراہا ہے، تاہم اسے صنعتی برادری کے لئے ایک ناکافی اقدام قرار دیا ہے، 2022 میں جب یہ حکومت برسرِ اقتدار آئی تو صنعتی بجلی کی اوسط قیمت 18 روپے فی یونٹ تھی جسے بتدریج بڑھاتے ہوئے اپریل 2025 میں 48 روپے فی یونٹ تک پہنچا دیا گیا۔

اب محض 7.69 روپے کی کمی کے بعد قیمت 40.51 روپے فی یونٹ ہو گئی ہے جو اس حد تک بڑھے ہوئے نرخوں کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے، یہ اقدام صنعتی برادری کو حقیقت سے دور رکھ کر محض ایک وقتی تاثر دینے کی کوشش ہے جبکہ زمینی حقائق مکمل طور پر مختلف ہیں۔

(جاری ہے)

ایک بیان میں سلیم میمن نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران ہزاروں صنعتیں شدید بحران کا شکار ہوئیں ہیں۔

سرکاری اور غیرسرکاری رپورٹس کے مطابق مارچ 2022 سے لے کر اب تک پاکستان بھر میں 1,600 سے زائد چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتیں مکمل طور پر بند ہو چکی ہیں یا انہوں نے اپنی پیداوار انتہائی محدود کر دی ہے۔ درجنوں بڑی صنعتیں بہتر ماحول، سستی توانائی اور پائیدار پالیسیوں کی تلاش میں بنگلہ دیش، متحدہ عرب امارات اور ویتنام جیسے ممالک منتقل ہو چکی ہیں۔

ہم افسوس کے ساتھ کہنا چاہتے ہیں کہ ویتنام جس نے کئی دہائیوں تک عالمی طاقتوں کے ساتھ جنگ کی اور شدید تباہی کا سامنا کیا آج ایک ایسی مستحکم معیشت بن چکا ہے جو برآمدات، صنعت اور سرمایہ کاری کے میدان میں پاکستان سے کہیں آگے نکل چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سنگین صنعتی بحران کی بنیادی وجہ بجلی کی بلند قیمتیں ہیں جن کا تعلق مہنگے اور ناقابل برداشت معاہدوں سے ہے جو مختلف نجی بجلی گھروں کے ساتھ کئے گئے۔

یہ معاہدے ملکی مفاد کے برخلاف ڈالرز میں ادائیگیوں، کیپسٹی چارجز اور دیگر غیر منصفانہ شرائط پر مبنی ہیں۔ حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری نے 2022 سے اب تک بارہا ان معاہدوں پر نظرثانی کی گزارش کی، حکومتی اداروں کو تحریری خطوط لکھے اور مختلف اجلاسوں میں توجہ دلائی، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان معاہدوں پر نہ تو مکمل طور پرکوئی نظرثانی ہوئی اور نہ ہی قومی سطح پر بحث کا آغاز کیا گیا۔

صدر چیمبر نے کہا کہ عالمی منڈی کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کا رویہ مزید حیران کن ہے۔ 2022 میں جب عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت 116 ڈالر فی بیرل تھی تب بھی پاکستان میں بجلی کی قیمت نسبتا کم تھی۔ آج اپریل 2025 میں خام تیل کی قیمت 62 ڈالر فی بیرل پر آ چکی ہے جو کہ تقریبا نصف ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں نمایاں کمی نہیں کی بلکہ ان میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت کی پالیسی میں شفافیت کا فقدان ہے اور اِس میں صنعت کو ریلیف دینے کا کوئی حقیقی ارادہ شامل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں بجلی کے بلوں پر سب سے زیادہ ٹیکسز، سرچارجز اور ایڈجسٹمنٹ لاگو ہوتے ہیں۔ ایک عام صنعتی صارف کو اصل بجلی کی قیمت سے کئی گنا زائد ادائیگی کرنا پڑتی ہے کیونکہ بل میں 17 سے زائد اقسام کے چارجز شامل کئے جاتے ہیں جن میں فیول ایڈجسٹمنٹ، جی ایس ٹی، ایف سی سرچارج، ٹی وی فیس، فکسڈ چارجز اور دیگر شامل ہیں۔

دنیا کے کسی ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملک میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ اِس قدر زیادہ ٹیکسز اور اضافی چارجز بجلی کے بلوں میں شامل کئے جائیں۔ انہوں نے دنیا کے دیگر ممالک کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش برآمدی صنعتوں کو بجلی 5 روپے فی یونٹ سے بھی کم نرخ پر فراہم کرتا ہے جبکہ حکومت سبسڈی خود ادا کرتی ہے۔ چین میں انڈسٹریل زونز میں بجلی، پانی اور زمین جیسی سہولتیں تقریبا مفت فراہم کی جاتی ہیں تاکہ سرمایہ کاروں کو راغب کیا جا سکے۔

ویتنام میں برآمدی صنعت کو بجلی پر 50 فیصد رعایت دی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کی برآمدات تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور معیشت مضبوط ہو رہی ہے۔ صدر چیمبر نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کہ کہ فوری طور پر آئی پی پیز کے معاہدوں پر قومی سطح پر بحث کی جائے ان پر نظرثانی کی جائے اور غیرمنصفانہ شرائط کو ختم کیا جائے۔ صنعتی صارفین کو بجلی کی قیمت کم از کم 25 روپے فی یونٹ پر لائی جائے تاکہ صنعت کا پہیہ چل سکے۔ بجلی کے بلوں پر عائد تمام غیر ضروری ٹیکسز اور سرچارجز ختم کئے جائیں اور برآمدی صنعت کو خطے کے دیگر ممالک کی طرز پر سبسڈی فراہم کی جائے تاکہ پاکستان کی معیشت کو استحکام اور ترقی مل سکے۔