اردو کے عظیم مفکر، محقق، ماہر لسانیات، معلم اور انجمن ترقی اردو اور اردو کالج کراچی کے بانی بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبد الحق دہلوی کی سالگرہ اتوار کو منائی گئی

اتوار 20 اپریل 2025 15:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 اپریل2025ء) بانی بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبد الحق دہلوی کی سالگرہ اتوار 20 اپریل کو منائی گئی ۔ انھوں نے اپنی تمام زندگی اردو کے فروغ، ترویج اور اشاعت کے لیے وقف کردی۔مولوی عبد الحق 20 اپریل،1870ء کو ضلع اترپردیش کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ ان کے بزرگ ہاپوڑ کے ہندو کائستھ تھے، جنھوں نے عہدِ مغلیہ میں اسلام کی روشنی سے دلوں کو منور کیا اور ان کے سپرد محکمہ مال کی اہم خدمات رہیں۔

مولوی عبد الحق کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی پھر میرٹھ میں پڑھتے رہے۔ 1894ءمیں علی گڑھ کالج سے بی اے کیا۔ علی گڑھ میں سرسید احمد خان کی صحبت میسر رہی اور ان کی آزاد خیالی اور روشن دماغی کا مولوی عبد الحق کے مزاج پر گہرا اثر پڑا۔

(جاری ہے)

1895ء میں حیدرآباد دکن میں ایک سکول میں ملازمت کی اس کے بعد صدر مہتمم تعلیمات ہوکر اورنگ آباد منتقل ہو گئے۔

ملازمت ترک کرکے عثمانیہ کالج اورنگ آباد کے پرنسپل ہو گئے اور 1930ء میں اسی عہدے سے سبکدوش ہوئے۔جنوری 1902ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشن کانفرنس علی گڑھ کے تحت ایک علمی شعبہ قائم کیا گیا جس کانام انجمن ترقی اردو تھا۔ مولانا شبلی نعمانی اس کے سیکرٹری رہے تھے۔ 1905ء میں نواب حبیب الرحمن خان شیروانی اور 1909ء میں عزیز مرزا اس عہدے پر فائز ہوئے۔

عزیز مرزا کے بعد 1912ء میں مولوی عبد الحق سیکرٹری منتخب ہوئے جنھوں نے بہت جلد انجمن ترقی اردو کو ایک فعال ترین علمی ادارہ بنا دیا۔ مولوی عبد الحق اورنگ آباد (دکن ) میں ملازم تھے وہ انجمن کو اپنے ساتھ لے گئے اور اس طرح حیدرآباد دکن اس کا مرکز بن گیا۔ انجمن کے زیر اہتمام لاکھ سے زائد جدیدعلمی، فنی اور سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کیا گیا۔

نیز اردو کے نادر نسخے تلاش کرکے چھاپے گئے۔ دو سہ ماہی رسائل، اردو اور سائنس جاری کیے گئے۔ ایک عظیم الشان کتب خانہ قائم کیا گیا۔ حیدرآباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی انجمن ہی کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ اس یونیورسٹی میں ذریعہ تعلیم اردو تھا۔ انجمن نے ایک دار الترجمہ بھی قائم کیا جہاں سینکڑوں علمی کتابیں تصنیف و ترجمہ ہوئیں۔ اس انجمن کے تحت لسانیات، لغت اور جدید علوم پر دو سو سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔

تقسیم ہند کے بعدانہوں نے اسی انجمن کے اہتمام میں کراچی، پاکستان اردو آرٹس کالج، اردو سائنس کالج، اردو کامرس کالج اور اردو لا کالج جیسے ادارے قائم کیے۔ مولوی عبد الحق انجمن ترقی اردو کے سیکریٹری ہی نہیں مجسّم ترقّی اردو تھے۔ ان کا سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، پڑھنا لکھنا، آنا جانا، دوستی، تعلقات، روپیہ پیسہ غرض کہ سب کچھ انجمن کے لیے تھا۔

1935ء میں جامعہ عثمانیہ کے ایک طالب علم محمد یوسف نے انھیں بابائے اردو کا خطاب دیا جس کے بعد یہ خطاب اتنا مقبول ہوا کہ ان کے نام کا جزو بن گیا۔ 23 مارچ، 1959ء کو حکومت پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا گیا۔ ان کی تصانیف وتالیفات میں نکات الشعرا،دیوانِ تابان،گلشنِ عشق،قطب مشتری،دیوانِ اثر،تذکرہ ریختہ گویاں،مخزن ،شعرا،ریاض الفصحا،عقدِ ثریا،کہانی رانی کیتکی اور اودھ بھان،تذکرۂ ہندی،چمنستانِ شعرا،ذکرِ میر،مخزنِ نکات،اُردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام،قواعد اُردو،معراج العاشقین،باغ و بہار،سب رس از ملاّ وجہی،قدیم اُردو،سرسیّد احمد خاں - حالات و افکار،چند ہم عصر،نصرتی-حالات اور کلام پر تبصرہ،مرحوم دہلی کالج،پاکٹ انگریزی اُردو ڈکشنری،سٹوڈنس انگریزی اُردو ڈکشنری،اُردو انگریزی ڈکشنری،سٹنڈرڈ انگلش اُردو ڈکشنری،لغت ِکبیر جلد اول،انتخاب کلامِ میر،دریائے لطافت،گل عجائب،انتخابِ داغ،اُردو صرف و نحو،خطبات گارساں د تاسی،دی پاپولر انگلش اُردو ڈکشنری،افکارِ حالی،پاکستان کی قومی و سرکاری زبان کا مسئلہ،سر آغا خاں کی اُردو نوازی سمیت دیگر کئی کتب شامل ہیں۔

بابائے اردو مولوی عبد احق 16 اگست 1961ء کو کراچی میں وفات پا گئے اور وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی کے عبد الحق کیمپس کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔ان کی برسی کے موقع پر علمی و ادبی حلقوں کی جانب سے ان کی خدمات پر بھر پور انداز میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔