پانی کی قلت اور موسمیاتی تبدیلیاں زرعی مستقبل کے لیے تشویشناک صورتحال پیدا کر چکی ہیں،زرعی ماھرین

منگل 22 اپریل 2025 18:29

حیدرآباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 اپریل2025ء) ملکی و غیر ملکی ماہرین نے کہا ہے کہ پانی کی قلت، موسمیاتی تبدیلیاں، زمین میں بڑھتی ہوئی نمکیات اور نامیاتی مادہ کی کمی اس خطے کے زرعی مستقبل کے لیے تشویشناک صورتحال پیدا کر چکی ہیں۔ اگر بروقت توجہ نہ دی گئی تو نہ صرف زرعی پیداوار میں کمی آئے گی بلکہ خوراک کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

یہ باتیں مختلف اداروں سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کی زیرمیزبانی اور سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے "مٹی ۔ ہمارے خوشحال مستقبل کے لیے خاموش سہارا"کے زیر عنوان منعقدہ پہلی دو روزہ بین الاقوامی سوائل سائنس کانفرنس کی افتتاحی تقریب کے دوران کہیں۔ سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر الطاف علی سیال نے کہا کہ پانی کی غیر مؤثر تقسیم، دریاؤں میں پانی کی کمی، کیمیکل کے بے قابو استعمال اور زمین کی نامیاتی ساخت میں کمی کی وجہ سے سندھ کے زرخیز علاقے اب تھکن کا شکار ہو چکے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ زمین ہماری زندگی کا خاموش سہارا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم اس کی حفاظت سے غافل رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ زمین کی قدرتی زرخیزی کو محفوظ بنانے کے لیے پائیدار زرعی نظام، درست فصلوں کا انتخاب اور جدید آبپاشی کے طریقے اپنائے جائیں۔ایگریکلچر ریسرچ سندھ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر مظہرالدین کیریو نے کہا کہ پانی کی قلت، موسمی تبدیلیوں اور زمین کی صحت پر توجہ نہ دینے کے باعث زمین کی زرخیزی شدید متاثر ہوئی ہے۔

اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے جدید فصلوں کی ٹیکنالوجی، نامیاتی مادہ میں اضافہ اور مٹی کی بحالی کے طریقے اپنانے ناگزیر ہیں۔مٹی کے ماہر، سابق ڈی جی ایگریکلچر ریسرچ اور پروفیسر ڈاکٹر قاضی سلیمان میمن نے کہا کہ صوبے میں زمین کی زرخیزی اور نمکیات سے متعلق مکمل ڈیٹا موجود نہیں، جس کی وجہ سے پالیسی ساز درست فیصلے نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ڈیٹا پر مبنی علاقائی نقشوں کی تیاری بہت ضروری ہے۔

ایف اے او سندھ آفس کے سربراہ جولیئس گیتھنجی موچیمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایف اے او سندھ کے کسانوں کے مسائل کے حل کے لیے سرگرم عمل ہے، خصوصاً موسمیاتی تبدیلیوں اور زمین کے مسائل پر فنی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسانوں کو جدید زرعی طریقوں پر کام کرنے کے لیے ترغیب دیتے ہیں، لیکن اکثر کسان نئی ٹیکنالوجی اور ہمارے تجربات پر عمل نہیں کرتے۔

پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے تحت کام کرنے والے سدرن ایگریکلچرل ریسرچ سینٹر(سارک) کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ذاکر حسین ڈاہری نے کہا کہ لاڑ سمیت سندھ کے کئی علاقے سیم اورزیر زمین نمکیات میں اضافے کے ساتھ ساتھ نامیاتی کاربن کی کمی کا شکار ہیں، جب کہ پاکستان میں گرین ہاؤسز کا کردار صرف ایک فیصد ہے۔کانفرنس کے چیئر ڈاکٹر الہو دایو گانداہی نے کہا کہ ملک میں موسمیاتی تبدیلی، زمین کا بنجر ہونا، قدرتی وسائل میں کمی اور خوراک کی سلامتی کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

آنے والی نسلوں کو زمین اور مٹی کی اہمیت سے روشناس کرانا ہوگا۔کانفرنس کے سیکریٹری ڈاکٹر محمد سلیم سرکی نے بتایا کہ دنیا بھر سے 160 تحقیقی مقالات موصول ہوئے، جن میں ملائیشیا، چین، آسٹریلیا، بحرین اور ترکی سمیت مختلف ممالک کے ماہرین نے آن لائن ٹیکنیکل سیشنز میں اپنے مقالات پیش کیے۔اس موقع پر ڈاکٹر عبدالحفیظ ببر، ڈاکٹر ضیاء الحسن شاہ، ڈاکٹر عزیز ٹالپر، ڈاکٹر سلیم مسیح، ڈاکٹر صائمہ کلثوم ببر سمیت دیگر ماہرین نے بھی خطاب کیا۔ تقریب کے دوران پوسٹر پریزنٹیشنز اور مختلف نجی کمپنیوں و زرعی اداروں کی جانب سے نمائش بھی منعقد کی گئی۔