Live Updates

کئی پاکستانی صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کے اکاؤنٹ منجمد، مگر کیوں؟

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 25 اپریل 2025 15:20

کئی پاکستانی صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کے اکاؤنٹ منجمد، مگر کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 اپریل 2025ء) پاکستان میں گزشتہ چند دنوں کے دوران متعدد صحافیوں، جن میں عمران ریاض خان، صدیق جان اور اسد طور بھی شامل ہیں، کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے گئے۔ لیکن صرف ان کے اپنے اکاؤنٹ ہی نہیں بلکہ ریاستی اداروں نے ان صحافیوں کے رشتہ داروں، بچوں اور بعض بیوہ خواتین کے بینک اکاؤنٹ بھی بظاہر صرف اس وجہ سے منجمد کر دیے کہ وہ ان صحافیوں کے اہل خانہ یا قریبی رشتہ دار ہیں۔

چند واقعات میں ریاستی ادارے کسی صحافی کو براہ راست ہدف بنانے کے بجائے، ان کے رشتہ داروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مثلاﹰ صحافی مطیع اللہ جان کے کیس میں ان کی بیوہ بہن کے پینشن اکاؤنٹ کو بھی منجمد کر دیا گیا۔ ان صحافیوں کا الزام ہے کہ ریاست انہیں ان کے خیالات کے ریاستی پالیسیوں کے حق میں یا ان سے ہم آہنگ نہ ہونے کی سزا کے طور پر ایسے ''غیر قانونی طریقے‘‘ استعمال کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

’رشتہ داروں کو سزا کیوں؟‘

مطیع اللہ جان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ریاست انہیں سزا دینا چاہتی ہے، تو پھر ان کے رشتہ داروں کو سزا کیوں دی جا رہی ہے؟ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ریاست ہر طرح کے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے تاکہ انہیں صحافت کو بطور پیشہ چھوڑ دینے یا ریاستی پالیسیوں سے متعلق اپنے خیالات تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔

پاکستان، صحافی وحید مراد ضمانت پر رہا

مطیع اللہ جان نے کہا، ''یہ صحافی برادری کے لیے بدترین دور ہے۔ اس سے پہلے احمد نورانی کے بھائیوں کو بلاوجہ نشانہ بنایا گیا۔ اب صحافیوں کے رشتہ دار بھی ان جرائم کی سزا بھگت رہے ہیں، جو انہوں نے کیے ہی نہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ان کی ایک گاؤں میں رہنے والی بہن کے پینشن اکاؤنٹ کو منجمد کر دیا گیا اور اس اقدام کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی جا رہی۔

رقوم کے وصول کنندگان کے اکاؤنٹ بھی منجمد

صحافی عمران ریاض خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نہ صرف ان کے ذاتی بینک اکاؤنٹ فریز کر دیے گئے ہیں بلکہ کچھ ایسے افراد کے اکاؤنٹ بھی مبینہ طور پر بلاک کر دیے گئے ہیں، جنہیں ان کا خاندان 'خیراتی رقوم‘ بھیجا کرتا تھا اور اب ایسے لوگ بھی مشکلات کا شکار ہیں۔

عمران ریاض خان نے کہا، ''میں کبھی نہیں چاہتا تھا کہ اس خیراتی کام کو ظاہر کیا جائے۔

لیکن اب یہ بتانا ضروری ہو گیا ہے کہ ریاست کس حد تک انتقامی مزاج کی حامل ہو چکی ہے کہ وہ صحافیوں کے اختلافی نظریات کی وجہ سے نہ صرف انہیں بلکہ ان ضرورت مند انسانوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے، جن کی ہم مدد کر رہے تھے۔‘‘

پاکستان کو مزید کتنا ’ہارڈ اسٹیٹ‘ بنانے کی ضرورت ہے؟

نابالغ بچوں کے اکاؤنٹ بھی منجمد

ایک اور پاکستانیصحافی کے معاملے میں حکام نے ان کے پورے خاندان کو نشانہ بنایا اور نابالغ بچوں تک کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے۔

صحافی اسد طور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کا ذاتی بینک اکاؤنٹ، ان کے والدین، دو بھائیوں، ایک کزن، ان کی اہلیہ اور ان کے دو نابالغ بچوں تک کے اکاؤنٹ منجمد کر دیے گئے ہیں۔

اسد طور کے مطابق، ''میں نے صرف اپنے کزن کو کچھ پیسے ادھار دیے تھے۔ اب اس کا پورا خاندان متاثر ہو رہا ہے۔ میرے اکاؤنٹ میں یا اس سے رقوم کی منتقلی قطعاﹰ جائز اور قانونی ہے۔

یہ رقوم گوگل ایڈسینس سے یوٹیوب کے ذریعے ہونے والی کمائی کے طور پر مجھے منتقل ہوتی ہیں۔ میرے بینک اکاؤنٹ میں کچھ بھی خفیہ نہیں۔ لیکن حکام جو کچھ بھی کر رہے ہیں، اس کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی جا رہی۔ یہاں تک کہ میرے کزن کے دو نابالغ بچوں کے سیونگ اکاؤنٹ بھی بند کر دیے گئے۔‘‘

یہ بینک اکاؤنٹ منجمد کون کروا رہا ہے؟

متاثرہ پاکستانی صحافیوں کے مطابق متعلقہ بینکوں نے بظاہر وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی ہدایت پر ان کے اور ان کے رشتہ داروں کے اکاؤنٹ منجمد کیے ہیں، لیکن دراصل پس پردہ ڈوریاں کوئی اور طاقت ہلا رہی ہے۔

صحافی صدیق جان کے بینک اکاؤنٹ بھی بلاک کر دیے گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی رائے میں اس کارروائی کے پیچھے مبینہ طور پر ملکی خفیہ ایجنسیاں ہیں اور ایف آئی اے یہ اقدامات اپنے طور پر نہیں کر رہی۔

انہوں نے کہا، ''یہ اقدام مکمل طور پر غیر قانونی ہے۔ ہماری آوازوں کو دبانے کی کوشش ہے۔ لیکن ایسے اقدامات کا اثر ہمیشہ الٹا ہوتا ہے اور ریاست کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچتا ہے۔

‘‘

سال دو ہزار چوبیس پاکستانی صحافیوں کے لیے کیسا رہا؟

ان صحافیوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ ریاست اب صحافی برادری کو کھلم کھلا نشانہ اس لیے بنا رہی ہے کہ وہ مبینہ طور پر ملکی عدالتی نظام پر بھی اثر انداز ہو چکی ہے۔ ان صحافیوں کے بقول ریاست کو یقین ہو گیا ہے کہ متاثرین کو ''انصاف کی فراہمی کے لیے عدلیہ اب کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔

‘‘

عمران ریاض خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''انہوں نے عدلیہ کو اپنا غلام بنا لیا ہے۔ اب عدلیہ سے انصاف ملنے کی امید بہت کم رہ گئی ہے۔ اسی لیے ریاست کھلے عام اس طرح کے غیر اخلاقی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے تاکہ وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکے۔ لیکن وہ اپنے یہ مقاصد حاصل نہیں کر سکے گی۔‘‘

پاکستانی صحافتی تنظیموں

پاکستانی صحافتی تنظیموں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات مکمل طور پر غیر قانونی ہیں اور صحافیوں، ان کے اہل خانہ اور قریبی رشتہ داروں کا ہراساں کیا جانا کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔

پاکستان میں نیشنل فائر وال کی تنصیب، آزادی اظہار خطرے میں؟

راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کے صدر طارق ورک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم ان اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ موجودہ حالات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہیں اغوا کیا جا رہا ہے۔ ان کے خاندانوں تک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ابھی حال ہی میں ایک صحافی ارشد ملک کو بھی ملتان سے اغوا کر لیا گیا۔ ریاست صحافیوں کو ہراساں کرنے کے لیے ان کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر کے انہیں گھٹنوں پر لانا چاہتی ہے اور یہ سب قابل مذمت حربے ہیں۔‘‘

طارق ورک نے تاہم یہ اعتراف بھی کیا کہ بعض اوقاتصحافی بھی اپنی حدود سے تجاوز کر کے پراپیگنڈا کا حصہ بن جاتے ہیں، لیکن ایسی صورت میں ''ریاست کو ان کے خلاف قانونی راستہ اختیار کرناچاہیے۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ اگر قانونی راستے سے مراد موجودہ پیکا قانون ہے، تو وہ اس لیے ناقابل قبول ہے کہ وہ انصاف کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کے بقول پیکا قانون میں ''جھوٹی خبر‘‘ کی تعریف مبہم ہے اور اس قانون میں ترمیم ناگزیر ہے۔

ادارت: مقبول ملک

Live پہلگام حملہ سے متعلق تازہ ترین معلومات