کسی بھی حملے کا فوری جواب دیا جائے گا، ایران کا نیتن یاہو کو جواب

بہت سے ایرانی اب جوہری معاہدے کو کافی نہیں سمجھتے،وزیرخارجہ عباس قراقچی

منگل 29 اپریل 2025 13:37

کسی بھی حملے کا فوری جواب دیا جائے گا، ایران کا نیتن یاہو کو جواب
تہران (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 اپریل2025ء)ایران نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی طرف سے تہران کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر ختم کرنے کے مطالبات کو مسترد کردیا اور کہا ہے کہ اس پروگرام کو نشانہ بنانے والے کسی بھی اسرائیلی حملے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اپنے ایکس اکائونٹ کے ذریعے نیتن یاہو کے ریمارکس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کا وہم ہے کہ وہ ایران کو حکم دے سکتا ہے کہ وہ کیا کر سکتا ہے یا نہیں۔

انہوں نے کہا نیتن یاہو کا بیان حقیقت سے اس قدر دور ہے کہ جواب دیے جانے کے بھی قابل نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو کی حالیہ تذلیل اس سے بھی ظاہر ہوجاتی ہے کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ ایران کے ساتھ اپنی سفارتی کوششوں میں کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں کر سکتے۔

(جاری ہے)

عباس عراقچی نے مزید کہا سابق امریکی صدر بائیڈن کی ٹیم کے نیتن یاہو کے اتحادی بھی ناکام رہے۔

وہ پہلے ایران کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہے تھے۔ فی الحال نیتن یاہو ایران اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کو جھوٹے انداز میں پیش کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ایرانی وزیر خارجہ نے زور دیا کہ ایران اپنی صلاحیتوں میں کافی مضبوط اور پراعتماد ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو سبوتاژ کرنے یا اس کے راستے کو سے ہٹانے کی بیرونی فریقوں کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے ایرانی اب جوہری معاہدے کو کافی نہیں سمجھتے۔ وہ ٹھوس فوائد کی تلاش میں ہیں۔ نیتن یاہو کے اتحادی جو بھی کہیں یا کریں وہ اس حقیقت کو تبدیل نہیں کریں گے۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ کوئی فوجی آپشن موجود نہیں ہیاور یقینی طور پر کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ کسی بھی جارحیت کا فوری جواب دیا جائے گا۔اسی تناظر میں ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے مشیر ایڈمرل علی شمخانی نے ایکس پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں کہا کہ نیتن یاہو کی جانب سے ایران کی جوہری صلاحیت کو تباہ کرنے کی دھمکی کے اسرائیل کے لیے ایسے نتائج برآمد ہوں گے جو تصور سے باہر ہوں گے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا یہ دھمکیاں اسرائیل کا آزادانہ فیصلہ ہیں یا یہ ٹرمپ کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اور ان کا مقصد ایران کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو متاثر کرنا ہی