اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 مئی 2025ء) سن 2024 میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم 7.3 ارب ڈالر رہا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 29 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے اعلان کے بعد، اگرچہ اس فیصلے کو 90 روز کے لیے مؤخر کر دیا گیا، لیکن تمام ممالک کے لیے 10 فیصد کا بنیادی ٹیرف برقرار ہے۔
امریکی دفتر برائے تجارت کے مطابق پاکستان نے سن 2024 میں 5.1 ارب ڈالر مالیت کی مصنوعات، خاص طور پر ٹیکسٹائل اور کپاس، امریکہ برآمد کیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ نئے امریکی ٹیرف کے نفاذ سے پاکستانی برآمدات میں 20 سے 25 فیصد کمی ہو سکتی ہے۔فوری اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟
ماہر معاشیات ڈاکٹر احمد اعجاز ملک کے مطابق امریکی برآمدات پر فوری طور پر کوئی بڑا اثر متوقع نہیں ہے۔
(جاری ہے)
تاہم عالمی معاشی سست روی کی صورت میں پاکستانی صنعت اور معیشت متاثر ہو سکتی ہے۔
معاشی تجزیہ کار شہباز رانا کا کہنا ہے کہ آن لائن کاروبار کرنے والے پاکستانی تاجر زیادہ تر مصنوعات چین سے درآمد کرتے ہیں تو فی الحال اس کا اثر صارفین تک منتقل نہیں ہو گا۔
لیکن امریکی مارکیٹ میں مہنگائی سے قوتِ خرید کم ہونے کی صورت میں عالمی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے چینی سمارٹ فونز اور الیکٹرانک مصنوعات کو نئے امریکی محصولات سے مستثنیٰ رکھنا تجارتی معاہدوں میں گنجائش کی طرف اشارہ ہے۔
تاجر برادری کو درپیش مشکلات
راولپنڈی کے تاجر محمد خرم شہزاد کے مطابق پاکستانی تاجر دو بڑے چیلنجز سے نبردآزما ہیں: ایک طرف امریکی پالیسیوں سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں (جیسے سخت کسٹمز ضوابط، وقت کی پابندیاں اور انوینٹری پر انحصار) اور دوسری طرف بڑھتے ہوئے لاجسٹکس اخراجات ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مصنوعات کی تیاری کے مقام کی لازمی نشاندہی، جیسے عوامل میکسیکو جیسے ممالک کو پاکستان پر برتری دلا سکتے ہیں۔سستی چینی مصنوعات کی ممکنہ یلغار
اس صورت حال میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے چیئرمین محمد جاوید حنیف خان نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر چین کی امریکی برآمدات کم ہوئیں تو وہ پاکستان جیسے ممالک کی منڈیوں کی طرف رخ کر سکتا ہے اور اس سے سستی چینی مصنوعات کی یلغار مقامی صنعت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
انہوں نے حکومت سے اس کے خلاف پیشگی حکمتِ عملی تیار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔متبادل شعبوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت
ڈاکٹر احمد اعجاز ملک نے زور دیا کہ پاکستان کو معاشی پالیسیوں کا جائزہ لے کر متبادل شعبوں، خصوصاً آئی ٹی اور خدمات، کو فروغ دینا چاہیے۔ فی الحال ٹیکسٹائل مصنوعات پاکستان کی سب سے بڑی برآمدات ہیں لیکن کم قیمت کی وجہ سے مستقبل میں چین یا دیگر ممالک اس کی جگہ لے سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکی منڈی میں خدمات، خاص طور پر آئی ٹی اور انٹیلی جنس، کی بڑی طلب موجود ہے، جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
محمد جاوید حنیف نے بھی برآمدات کے معیار اور مسابقتی صلاحیت بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔
ای-کامرس اور نئی حکمتِ عملی کی ضرورت
محمد خرم شہزاد نے تجویز دی کہ پاکستان کو ایک جامع ای-کامرس حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے، جس میں سپلائرز کے تنوع، برآمدی فنانسنگ، ڈیجیٹل مہارتوں، لاجسٹکس کی بہتری اور عالمی معیار کی کسٹمز اصلاحات کو شامل کیا جائے۔
ان کا زور دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ''میک اِن پاکستان‘‘ برانڈ کی عالمی سطح پر پذیرائی اور پبلک-پرائیویٹ شراکت داری سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو عالمی منڈی میں مقابلے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔
سفارتی و تجارتی توازن ضروری
راولپنڈی چیمبر آف کامرس کے صدر عثمان شوکت کہتے ہیں کہ حکومت پاکستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے کاروباری ادارے امریکی حکام سے منصفانہ تجارت کی درخواست کر رہے ہیں تاکہ پاکستان کو ٹیرف فہرست سے خارج کیا جائے۔
اسی طرح بین الاقوامی تعلقات کی ماہر ڈاکٹر سعدیہ سلمان نے تجویز دی کہ پاکستان امریکہ اور چین کے ساتھ متوازن تعلقات استوار کرتے ہوئے عالمی برادری کے سامنے خود کو ایک مستحکم اور اصلاح پسند معیشت کے طور پر پیش کرے۔
ادارت: امتیاز احمد