عالمی برادری خاموش تماشائی بننے کے بجائے بھارت کے جارحانہ اقدامات پر کھل کر بات کرے،سمعیہ ساجد

10 سے 40 سال قبل آزادکشمیر میں شادیاں کر کے مقبوضہ کشمیر منتقل ہونے والی خواتین کو اب ان کے شوہروں، بچوں اور دیگر عزیز و اقارب سے جبراً الگ کر کے پاکستان واپس بھیجا جا رہا ہے

اتوار 4 مئی 2025 13:25

مظفرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 مئی2025ء)مرکزی چیئرپرسن مسلم کانفرنس خواتین ونگ اور چیئرپرسن کشمیر ویمن الرٹ فورم (کواف) محترمہ سمعیہ ساجد نے بھارت کی جانب سے آزادکشمیر سے شادی کر کے مقبوضہ کشمیر میں مقیم پاکستانی خواتین اور ان کے بچوں کو واہگہ بارڈر کے ذریعے زبردستی ملک بدر کرنے کے غیر انسانی، غیر قانونی اور ظالمانہ اقدام پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے بیس کیمپ کی حکومت، وزیر اعظم آزادکشمیر اور دیگر متعلقہ اداروں کی توجہ اس اہم انسانی مسئلے کی طرف مبذول کراتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وہ فوری ایکشن لیں اور بھارت کے اس عمل کو بین الاقوامی سطح پر بھرپور طریقے سے اُٹھائیں۔ محترمہ سمعیہ نے کہا کہ 10 سے 40 سال قبل آزادکشمیر میں شادیاں کر کے مقبوضہ کشمیر منتقل ہونے والی خواتین کو اب ان کے شوہروں، بچوں اور دیگر عزیز و اقارب سے جبراً الگ کر کے پاکستان واپس بھیجا جا رہا ہے، جو کسی بھی انسانی، اخلاقی یا قانونی اصول کے مطابق درست نہیں۔

(جاری ہے)

سمعیہ ساجد نے زور دیا کہ یہ مسئلہ صرف خواتین یا خاندانوں کا نہیں بلکہ ایک وسیع انسانی بحران ہے، جس پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو فوری توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت پاکستان، خاص طور پر حکومت آزادکشمیر، اس معاملے پر نہ صرف بھرپور آواز بلند کرے بلکہ فوری عملی اقدامات بھی کرے۔انہوں نے کہا کہ 1947 کے بعد مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کر کے آزادکشمیر آنے والے بہت سے نوجوانوں نے یہاں شادیاں کیں، اور بعدازاں اپنے خاندانوں کے ساتھ واپس مقبوضہ کشمیر گئے۔

آج ان کے ساتھ بھی وہی غیر انسانی سلوک دہرایا جا رہا ہے۔ انہیں بغیر کسی الزام یا قانونی کارروائی کے اپنے اہلِ خانہ سے جدا کر کے آزادکشمیر بھیجا جا رہا ہے، جو کہ بھارت کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔سمعیہ ساجد نے حکومت آزادکشمیر سے فوری اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ چیف سیکریٹری پنجاب، پاکستانی ہائی کمشنر دہلی، اور دیگر متعلقہ وفاقی اداروں سے فوری طور پر رابطہ کیا جائے۔

انہوں نے تجویز دی کہ واہگہ اور اٹاری بارڈر پر آزادکشمیر کے نمائندے، بشمول مہاجرین اراکینِ اسمبلی، موجود ہوں تاکہ آنے والی خواتین اور بچوں کا باعزت استقبال کیا جا سکے اور ان کی فوری ضروریات پوری کی جائیں۔ان کا کہنا تھا کہ لاہور میں موجود لبریشن سیل کے افسران کو متحرک کیا جائے تاکہ وہ ان متاثرہ خاندانوں کو خوش آمدید کہیں اور انہیں آزادکشمیر تک سفری سہولیات فراہم کریں۔

بہت سی خواتین ایسی ہوں گی جن کے والدین اس دنیا میں نہیں رہے یا جن کے بھائی بیرونِ ملک ہیں، ان کے لیے آزادکشمیر میں باعزت عارضی رہائش کا انتظام حکومت کی ذمہ داری ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جب تک یہ خواتین اور بچے دوبارہ اپنے شوہروں اور خاندان سے نہ مل جائیں، حکومت آزادکشمیر کو ان کا سہارا بننا چاہیے اور انہیں احساس دلانا چاہیے کہ وہ اپنی ہی ریاست میں، اپنے ہی لوگوں کے درمیان محفوظ ہیں۔

سمعیہ ساجد نے واضح کیا کہ بھارتی حکومت کا یہ عمل نہ صرف بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے اس کا فاشسٹ اور مسلم مخالف چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری خاموش تماشائی بننے کے بجائے بھارت کے ان جارحانہ اقدامات پر کھل کر بات کرے اس نازک مرحلے پر قومی اور ریاستی قیادت کو چاہیے کہ وہ ذاتی اور سیاسی مفادات سے بالا تر ہو کر ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیں تاکہ ان متاثرہ خاندانوں کی فوری مدد ممکن ہو سکے۔