چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا غیر ضروری درخواستوں پر برہمی کا اظہار، اظہر صدیق ایڈووکیٹ کو وارننگ جاری

جمعرات 15 مئی 2025 22:00

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 مئی2025ء) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے غیر ضروری اور غیر سنجیدہ درخواستیں دائر کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سینئر وکیل اظہر صدیق کو وارننگ جاری کر دی۔چیف جسٹس عالیہ نیلم نے پی این آئی ایل لسٹ میں عام شہریوں کے نام ڈالنے کے خلاف دائر درخواست کو ناقابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔

عدالت نے4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ایسی درخواستیں بغیر کسی ذمہ داری اور قانونی طریقہ کار کے دائر کی جاتی ہیں۔فیصلے میں قرار دیا گیا کہ بلا وجہ کیسز دائر کرنے کی عادت کے باعث عدالتیں فضول نوعیت کے مقدمات سے بھر گئی ہیں، ہر معاملے پر مفادِ عامہ کی درخواست دائر کر دی جاتی ہے جو اکثر اوقات محض شہرت حاصل کرنے کے لیے دائر کی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

عدالت نے واضح کیا کہ ایسا طرزِ عمل مفادِ عامہ کی درخواستوں کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچاتا اور عدالتی وقت ضائع ہوتا ہے۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ایسے رجحان کو مناسب جرمانوں کے ذریعے روکا جانا چاہیے، بصورت دیگر عدالت ایک خاموش تماشائی بن جائے گی جہاں عوام کا وقت اور وسائل ضائع ہوں گے۔ عدالت نے نشاندہی کی کہ جب لاکھوں مقدمات فیصلے کے منتظر ہیں، عدالت فضول نوعیت کے کیسز کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

عدالت کو بتایا گیا کہ موجودہ درخواست گزار نے استدعا کی کہ پی این آئی ایل لسٹ کی ایس او پیز کو کالعدم قرار دیا جائے۔ سرکاری وکیل نے موقف اختیار کیا کہ اسی نوعیت کی درخواست منیر احمد کے ذریعے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی گئی تھی، جسے مسترد کر دیا گیا اور لاہور ہائیکورٹ سے یہ بات چھپائی گئی۔ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے موقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر درخواست موجودہ درخواست گزار نے نہیں دی تھی، تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ اس درخواست میں وکیل ضرور تھے۔

عدالت نے قرار دیا کہ اظہر صدیق یہ بتانے سے قاصر رہے کہ لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے مقدمے کا ذکر کیوں نہیں کیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ اظہر صدیق نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے عدالتی آڈر سے لاعلمی ظاہر کی، تاہم انہیں اس آڈر سے آگاہ کیا گیا جس میں ان کی حاضری موجود ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا آڈر سپریم کورٹ میں چیلنج بھی نہیں کیا گیا۔

عدالت نے تمام ریکارڈ اور دلائل کا جائزہ لینے کے بعد درخواست کو ناقابلِ سماعت قرار دے کر خارج کر دیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ایک ہی نوعیت کے ریلیف کے لیے مختلف فورمز پر کارروائی نہیں کی جا سکتی اور عدالتی وقت صرف سنجیدہ مسائل کے لیے مختص ہونا چاہیے تاہم عدالت نے اس بار کوئی سخت کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔