اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 مئی 2025ء) سی این این نے ان امریکی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات ابھی واضح نہیں کہ آیا اسرائیلی رہنماؤں نے ایران پر حملے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ مزید یہ کہ امریکی حکومت کے اندر اس بات پر عدم اتفاق ہے کہ آیا اسرائیلی رہنما لازمی طور پر ایسے کسی حملے کا فیصلہ کر لیں گے۔
حماس کے ساتھ جو کیا وہ ایران مت بھولے، اسرائیل کا انتباہ
تہران کا جوہری پروگرام: عمان میں امریکی ایرانی مذاکرات شروع
خبر رساں ادارہ روئٹرز تاہم ان رپورٹس کی اپنے طور پر فوری تصدیق حاصل نہیں کر سکا۔
یہ خبر سامنے آنے کے بعد تیل کی قیمتوں میں ایک فیصد اضافہ ہو گیا، جس کی وجہ یہ خدشات بنے کہ ایسے کسی حملے کے سبب ایرانی تیل کی فراہمی پر اثر پڑ سکتا ہے۔(جاری ہے)
روئٹرز کے مطابق اس معاملے کی تصدیق کے لیے واشنگٹن میں قائم اسرائیلی سفارت خانے، اسرائیل میں ملکی وزیر اعظم کے دفتر اور اسرائیلی فوج سے بھی رابطہ کیا گیا، تاہم کسی بھی طرف سے اس حوالے سے تبصرے کی درخواستوں کا کوئی جواب نہ دیا گیا۔
اس انٹیلیجنس انفارمیشن سے آگاہی رکھنے والے ایک اہلکار نے سی این این کو بتایا کہ ایک ایرانی جوہری تنصیب پر حملے کے امکانات ''حالیہ مہینوں کے دوران بہت حد تک زیادہ ہو گئے ہیں۔‘‘
سی این این نے مزید بتایا کہ ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ ایران کے ساتھ کسی معاہدے تک پہنچ جاتا ہے اور ایران میں موجود تمام یورینیم کو وہاں سے نہیں نکالا جاتا، تو اسرائیلی حملے کا امکان زیادہ ہو جائے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایران کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے تاکہ اس کے جوہری پروگرام کے معاملے پر کسی سفارتی حل تک پہنچا جا سکے۔
نئی انٹیلیجنس انفارمیشن کے ذرائع کیا؟
سی این این کی رپورٹ کے مطابق نئی انٹیلیجنس انفارمیشن کے ذرائع اسرائیل کے سینیئر اہلکاروں کی عوامی اور ذاتی رابطہ کاری اور اسرائیلی کمیونیکیشن کو سننے کے علاوہ اسرائیلی فوج کی نقل و حرکت بھی ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ حملہ متوقع ہے۔
اس امریکی نشریاتی ادارے نے دو ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ فوجی تیاریوں کے حوالے سے امریکہ نے فضائی ہتھیاروں کی نقل و حرکت اور ایک ہوائی مشق کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔
روئٹرز کے مطابق قبل ازیں منگل 20 مئی کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا تھا کہ امریکہ کی طرف سے تہران سے یورینیم کی افزودگی روک دینے کے مطالبات ''حد سے زیادہ اور شرمناک‘‘ ہیں۔ ایرانی سرکاری میڈیا کی ان رپورٹوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی نئے جوہری معاہدے کے سلسلے میں کاری مذاکرات کی کامیابی ابھی تک غیر یقینی ہے۔
ادارت: مقبول ملک، کشور مصطفیٰ