سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر و سنیارٹی کیس کی سماعت 29 مئی تک ملتوی کر دی

منگل 27 مئی 2025 16:58

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر و سنیارٹی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 مئی2025ء) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر و سنیارٹی کیس کی سماعت 29 مئی تک ملتوی کر دی۔سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر و سنیارٹی بارے درخواستوں پر سماعت کی۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفرججز کی نئی تقرری نہیں ، تبادلے پر آئے ججز کو نئے حلف کی ضرورت نہیں،اس ضمن میں سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ سنیارٹی تقرری کے دن سے شروع ہوگی۔

جسٹس شکیل احمد نے استفسار کیا کہ سیکرٹری لا نے ٹرانسفر ججز کے حلف نہ اٹھانے کی وضاحت کیوں دی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایڈوائس کی منظوری کے بعد ججز کے نوٹیفکیشن میں ابہام دور کرنے کے لئے وضاحت دی گئی۔

(جاری ہے)

اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سنیارٹی کا تعین چیف جسٹس عامر فاروق نے کیا۔ جسٹس عامر فاروق سنیارٹی کے تعین میں مکمل آزاد تھے، چاروں ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز اور رجسٹرار کی رپورٹ میں ججز تبادلہ پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا۔

پانچ ججز کی ریپریزنٹیشن پر جسٹس عامر فاروق نے فیصلہ دیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ججز کی ریپریزنٹیشن اور فیصلے کا درخواست گزار وکلا نے دلائل میں ذکر تک نہیں کیا۔ جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ کسی نے ریپریزنٹیشن اور فیصلہ کو پڑھا نہ ہی دلائل دیئے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ریپریزنٹیشن میں اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی استدعا کیا تھی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز نے ٹرانسفر ججز کی دوبارہ حلف اٹھانے پر سنیارٹی کے تعین کی استدعا کی تھی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو درخواست گزار ججز کے وکلا نے تمام باتیں نہیں بتائیں اور کچھ باتیں مخفی رکھی گئیں ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 200 میں ججز ٹرانسفرز کا طریقہ واضح ہے، ججز ٹرانسفرز کے معاملے پر ویٹو پاور عدلیہ کو دی گئی ہے، ایگزیکٹو کو نہیں، ججز ٹرانسفرز کے وقت تمام چیف جسٹسز نے اپنی آمادگی ظاہر کی۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ ججز ٹرانسفر کے حوالے سے کون سا رہبراصول اپنایا جائے گا؟ آئین خاموش ہے۔ جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل تین سوالات پر عدالت کی معاونت کریں، اگر یہ ٹرانسفرز مستقل ہیں تو ججز تعیناتی آئین کے آرٹیکل 175 اے کے ذریعے ہوتی ہیں، بلوچستان ہائیکورٹس سے جو ججز ٹرانسفر ہوئے، وہ ایڈیشنل جج ہیں، ایڈیشنل ججز کے مستقل ہونے کیلئے کارکردگی کون جانچے گا، بلوچستان ہائیکورٹ کا چیف جسٹس یا اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس؟ سنیارٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بتائیں کہ دیگر ہائیکورٹس سے ججز ٹرانسفر کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی انتظامی کمیٹی پر کیا اثر پڑا ہے؟ اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ اٹھارہویں ترمیم میں آرٹیکل 175 اے شامل ہوا۔

آئین سازوں نے آرٹیکل 200 کو نہیں نکالا۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 200 کے ذیلی سیکشن 1 اور2 کو ایک ساتھ پڑھا جائے؟ کیا آرٹیکل 200 کی ذیلی شق 2 کے تحت تبادلہ عبوری نہ ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ جج کا تبادلہ عارضی ہوگا، ذیلی سیکشن کے تحت اضافی الائونسز ملیں گے، جج کا تبادلہ مستقل ہو گا تو کوئی اضافی الائونس نہیں ملے گا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ذیلی سیکشن کی زبان واضح نہیں ہے، ججز ٹرانسفر کے نوٹیفیکیشن میں مستقل یا عارضی ٹرانسفر کا ذکر نہیں۔ اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ ٹرانسفر ججز میں سے کسی نے عارضی یا مستقل ٹرانسفر کا اعتراض نہیں اٹھایا، ٹرانسفر ججز سے مستقل ٹرانسفر کی رضامندی لی گئی۔ دوران سماعت آئینی بنچ نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاسوں کے منٹس طلب کئے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ہدایت کی کہ 17 جنوری اور 10 فروری کے جوڈیشل کمیشن اجلاس کے منٹس آف میٹنگ عدالت کو دئیے جائیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ان اجلاسوں میں کیا ہوا تھا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 17 جنوری کے جوڈیشل کمیشن اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں دو ایڈیشنل ججز کی تقرری ہوئی، 10 فروری کے اجلاس میں جسٹس عامر فاروق کی سپریم کورٹ میں تقرری ہوئی۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ کیا 10 فروری کے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز لسٹ میں جسٹس ڈوگر بھی شامل تھے؟ اٹارنی جنرل نے بتایاکہ جی بالکل وہ لسٹ میں شامل تھے مگر ان کے نام پر غور نہیں ہوا۔اس موقع پر اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے ججز کے تبادلے کیخلاف درخواستیں میرٹ پر مسترد کرنے کی استدعا کی اور کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز کی درخواست میرٹ پر مسترد کی جائے جبکہ دیگر درخواستوں کو نا قابل سماعت قرار دے کر خارج کیا جائے۔ عدالت نے کیس کی سماعت 29 مئی تک ملتوی کردی، آئندہ سماعت پر درخواست گزار ججز کے وکیل جواب الجواب دلائل دیں گے۔