اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 اگست 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو پاکستان کے تیل کے ذخائر کی مشترکہ ترقی کے لیے ایک نئے معاہدے کا اعلان کیا کیونکہ دونوں ممالک تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو وسعت دینے پر کام کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنے پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں لکھا، "ہم نے ابھی پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت پاکستان اور امریکہ اپنے تیل کے بڑے ذخائر کو ترقی دینے کے لیے مل کر کام کریں گے۔
"یہ بہرحال واضح نہیں ہو سکا کہ ٹرمپ کس "بڑے پیمانے پر" تیل کے ذخائر کا حوالہ دے رہے تھے۔ سینٹرل بینک کے اعداد و شمار کے مطابق تیل پاکستان کی سب سے بڑی درآمدی شے ہے، جو پاکستان کی کل درآمدی اخراجات کا تقریباً 20 فیصد ہے۔
(جاری ہے)
اس میں سے زیادہ تر تیل مشرق وسطیٰ کے ممالک سے آتا ہے۔
اس کے باوجود، ٹرمپ نے اس معاہدے کو ممکنہ طویل مدتی توانائی کی شراکت داری کے لیے "ایک اہم آغاز" قرار دیا۔
اس شراکت داری کا اعلان ٹرمپ نے جمعرات کو وائٹ ہاؤس کی جانب سے پاکستان کے ساتھ وسیع تر تجارتی معاہدے کا اعلان کرنے سے قبل کیا تھا۔ اس کے فوراً بعد امریکا میں پاکستانی درآمدات پر 19 فیصد ٹیرف کی شرح کا اعلان بھی کر دیا گیا، جو کہ پہلے کی 29 فیصد کی شرح سے کم ہے۔
پاکستان کا 'تاریخی معاہدے' کا خیر مقدم
دونوں ممالک نے پاک امریکہ تجارتی معاہدے کو بھی سراہا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے اسے ایک "تاریخی معاہدہ" قرار دیا اور کہا یہ "ہمارے بڑھتے ہوئے تعاون کو مزید بڑھا دے گا۔"پاکستان کی وزارت خزانہ کے مطابق یہ معاہدہ "خاص طور پر توانائی، کانوں اور معدنیات، آئی ٹی، کریپٹو کرنسی اور دیگر شعبوں میں اقتصادی تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔"
اس کے علاوہ جمعہ کو پاکستان نے ٹیرف کی نئی شرح کا بھی خیرمقدم کیا، وزارت خزانہ نے اسے امریکہ کی جانب سے "متوازن اور مستقبل کے حوالے سے دور اندیشانہ" قرار دیا۔
نیویارک میں مقیم بین الاقوامی امور کے ماہر عظیم خالد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "یہ پیشرفت پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں ایک دلچسپ تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے، روایتی طور پر جغرافیائی سیاسی اور تزویراتی شراکت داری سے زیادہ اقتصادی طور پر مرکوز تعاون کی طرف۔"
امریکہ نے بھارت پر 25 فیصد ٹیرف عائد کیا ہے جبکہ پاکستان پر اس کی شرح کم رکھی ہے۔
تیل کے معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے ٹرمپ نے نئی دہلی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ایک دن پاکستانی تیل خرید سکتا ہے۔''کون جانتا ہے، شاید وہ کسی دن بھارت کو تیل بیچ رہے ہوں گے!‘‘
دریں اثناء روئٹرز نیوز ایجنسی نے جمعہ کو رپورٹ کیا کہ پاکستان کی سب سے بڑی آئل ریفائنر Cnergyico نے کہا کہ وہ اپنے تجارتی پارٹنر Vitol کے ذریعے اکتوبر میں 10 لاکھ بیرل امریکی خام تیل درآمد کرے گا، جو کہ ایک ڈچ توانائی اور اجناس کی تجارتی کمپنی ہے۔
Cnergyico کے وائس چیئرمین اسامہ قریشی نے روئٹرز کو بتایا، "اگر یہ تجارتی طور پر قابل عمل اور دستیاب ہے، تو ہم ماہانہ کم از کم ایک کارگو درآمد کر سکتے ہیں۔"
جہاں تک پاکستانی تیل کا تعلق ہے، اس معاہدے سے پہلے پاکستان نے اس کی تلاش میں کئی ناکام کوششیں کی ہیں۔ پاکستان کے قابل بازیافت روایتی خام تیل کے ذخائر کا تخمینہ 234 ملین سے 353 ملین بیرل تک ہے، جس سے یہ ملک تیل کے ذخائر کے لحاظ سے دنیا میں تقریباً 50ویں نمبر پر ہے۔
توانائی، بلوچستان میں سکیورٹی سے منسلک
خیال کیا جاتا ہے کہ غیر استعمال شدہ تیل کے ذخائر بلوچستان میں موجود ہیں، جبکہ سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اس کے اضافی امکانات ہیں۔ بلوچستان میں وسائل کی ڈیولپمنٹ بہت سے سکیورٹی مسائل کے ساتھ جڑی ہے کیونکہ اسے ایک مسلح باغی تحریک کے مرکز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
بلوچ باغی پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے صوبے کے قدرتی وسائل کے حصول کو معاشی استحصال کی ایک شکل سمجھتے ہیں اور اکثر اس قسم کے منصوبوں کو حملوں سے نشانہ بناتے ہیں۔
تجارتی قانون کے ماہر اسامہ ملک کے مطابق بلوچستان سے تیل نکالنے سے مقامی آبادی خو کو مزید تنہا محسوس کر سکتی ہے۔ جو پہلے ہی چین کی جانب سے صوبے میں معدنی وسائل کی تلاش سے ناراض ہے۔
ماہرین حالیہ معاہدے کے بارے میں محتاط انداز میں پرامید ہیں کیونکہ اس سے سرمایہ کاری راغب کی جا سکتی ہے اور تیل نکالنے کی جدید ٹیکنالوجیز سمیت نئے فیلڈ سروے میں سہولت فراہم ہو سکتی ہے۔
تاہم، تصدیق شدہ ذخائر اور ضروری بنیادی ڈھانچے کے بغیر پیٹرولیم مصنوعات کا حصول غیر یقینی ہے۔سکیورٹی تجزیہ کار قمر چیمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "جب امریکی کمپنیاں بلوچستان میں آئی گی، تو یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ وہاں شورش اپنے عروج پر نہیں ہوگی۔"
انہوں نے مزید کہا، "جیسے جیسے ان گروپوں کی حمایت کم ہوتی جائے گی، یہ شورش میں کمی یا ممکنہ خاتمے کا باعث بنے گی۔
"پاکستان میں امریکہ کے جیو پولیٹیکل مفادات کیا ہیں؟
ایران اور افغانستان سے تعلقات کے پیش نظر امریکہ کے بلوچستان میں تزویراتی مفادات ہیں۔
چیمہ نے کہا، "واشنگٹن بلوچستان میں اپنی موجودگی قائم کرنے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے، جو معدنیات سے مالا مال ہے اور ایران سے قریب ہونے کی وجہ سے اہم اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے۔
"واشنگٹن بلوچستان کو ایرانی سرگرمیوں کے لیے ایک ممکنہ نگرانی اور دباؤ کے مقام کے طور پر دیکھتا ہے، خاص طور پر ایران کے جوہری پروگرام اور اس کے علاقائی اثر و رسوخ کے حوالے سے جاری کشیدگی کے دوران۔
اس معاہدے کے ممکنہ اثرات بھی ہیں کیونکہ واشنگٹن کا مقصد چین پر پاکستان کے بڑھتے ہوئے انحصار کو کم کرنا ہے۔
تجارتی قانون کے ماہر ملک نے کہا، "اسلام آباد کو توانائی اور معدنیات کے شعبے میں قابل ذکر چینی سرمایہ کاری اور امریکہ کی جانب سے مستقبل کی سرمایہ کاری کے درمیان بھی توازن قائم کرنا ہوگا۔
"چین پاکستان میں ریل اور روڈ روابط کی ترقی کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ 65 بلین ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) منصوبے کا مقصد چینی سامان کو سنکیانگ کے علاقے سے پاکستان کے پہاڑی علاقوں سے گزارتے ہوئے بلوچستان کی گوادر بندرگاہ پر بحیرہ عرب تک پہنچانا ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر خالد نے کہا، "چین کے نقطہ نظر سے، امریکی کمپنیوں کا پاکستان کے وسائل کی تلاش کے شعبے میں داخلہ چینی تیل اور معدنیات کی فرموں کے لیے ایک مسابقتی چیلنج ہے۔
پھر بھی، پاکستان اور چین کے تعلقات کی تاریخی گہرائی کو دیکھتے ہوئے، یہ صورت حال تنازعے کے بجائے سفارتی پل کا کام کر سکتی ہے۔"سکیورٹی ماہر قمر چیمہ کا خیال ہے کہ پاکستان فوجی سازوسامان کے لیے چین پر اور میکرو اکنامک استحکام کے لیے، خاص طور پر آئی ایم ایف کے ذریعے امریکہ پر انحصار کرتا ہے۔
چیمہ کے بقول اس معاہدے سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان اقتصادی شراکت داری کو مضبوط کرنے کا امکان ہے۔ "اس کے ساتھ امریکہ خطے میں بھارت کے علاوہ ایک متبادل اتحادی قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔"
ادارت: عرفان آفتاب / شکور رحیم