Live Updates

ہم قدم ہوتی خواتین

DW ڈی ڈبلیو منگل 27 مئی 2025 19:00

ہم قدم ہوتی خواتین

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 مئی 2025ء) شعر و شاعری کی زبان میں انھی سے تصویر کائنات میں رنگ بھر دیا جاتا ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ہمیں ان کے حقوق اور ان کے لیے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جد و جہد کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک اپنے ہاں کی خواتین کے حقوق اور ان کے لیے مختلف بیمار رویوں سے نجات کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان اس منفی فہرست میں کافی نمایاں نظر آتا ہے۔ یہاں خواتین کو غیر تعلیم یافتہ رکھنے اور انھیں کم تر سمجھنے کی سوچ پوری طرح ختم نہیں کی جاسکی، کوئی بھی ملک اپنی خواتین کو نظر انداز کر کے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتا، سو ہمارے ہاں بھی مختلف سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں خواتین کے حقوق اور ان کے لیے مساوات کے حوالے سے جد و جہد کرتی رہی ہیں اور اس کے دھیرے دھیرے ہی سہی لیکن کافی مثبت نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان میں مجموعی طور پر شرح خواندگی 62.8 فی صد ہے۔ صنفی اعتبار سے دیکھیے تو مردوں میں یہ شرح 73.4 فی صد اور خواتین میں صرف 51.9 فی صد ہے۔ گویا یہ تعداد نصف ہے۔ کسی بھی سماج میں ایک لڑکی کا تعلیم یافتہ ہونا ایک پورے خاندان کے تعلیم یافتہ ہونے کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ اکیسویں صدی کا پاؤ حصہ گزارنے کے بعد بھی ہمارے ڈھائی سے تین کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔

ان میں بھی بیش تر تعداد لڑکیوں کی ہے، کیوں کہ فی زمانہ آج بھی لڑکیوں پر تعلیم یا اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند ہیں۔ ہمارے ہاں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے اب بھی شہری اور دیہی ہر دو جگہوں پر مختلف طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ شہروں میں یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کی ایک معقول تعداد دکھائی تو دیتی ہے جو خوش آئند ہے، لیکن اس میں ایک سماجی مسئلہ بھی درپیش ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کی شادی کے لیے ہم پلہ لڑکوں کا ملنا مشکل ہو جاتا ہے، نتیجتاً انھیں کم تعلیم یافتہ جیون ساتھی ملتے ہیں، جس کی وجہ سے ذہنی ہم آہنگی نہیں ہو پاتی اور نتیجہ خاندانی تنازعات یا علیحدگی کی صورت میں نکلتا ہے۔

دوسری طرف دیہات میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اب بھی وہی پس ماندہ سوچ موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں صنفی مساوات پیدا نہیں ہو پاتی، اس لیے دیہی علاقوں میں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں کام پر جانے والی خواتین کے لیے آج بھی ایک اہم مسئلہ ہراسانی کا ہے، انھیں کہیں آتے جاتے اور آمد و رفت کے دوران میں مختلف مراحل پر خوف و ہراس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

آئے روز خواتین کے ساتھ نا زیبا سلوک اور زیادتیوں کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ اس کے تدارک کے لیے کام کی جگہ پر خواتین کے تحفظ کے حوالے سے 2010 کا 'خواتین پر کام کی جگہ پر ہراسانی کے خلاف تحفظ کا قانون' موجود ہے جو انھیں ایسی کسی بھی صورت حال سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

صوبہ پنجاب میں "پنجاب ویمنز ٹول فری ہیلپ لائن 1043" اور "ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن" کی "سائبر ہراسانی ہیلپ لائن'' بھی اس حوالے سے متاثرہ خواتین کو مدد فراہم کر رہی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ "امپاور آرگنائزیشن پاکستان" اور "یو ایس ایڈ" جیسی تنظیمیں بھی تعلیمی میدان میں خواتین کو وظائف فراہم کر رہی ہیں تا کہ ان کی تعلیمی میدان میں حائل رکاوٹیں دور کی جا سکیں۔

خواتین کی سفری سہولتوں کو بہ تر بنانے کے لیے سندھ میں ان کے لیے مخصوص 'پنک بسیں‘ چلائی گئی ہیں جو مکمل طور پر خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔

یہی نہیں بائیک چلانے اور سیکھنے کی خواہش مند لڑکیوں اور خواتین کے لیے 'مفت پنک اسکوٹی‘ فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ایسے ہی خواتین کی سفری خود مختاری کے لیے لاہور میں "ویمن آن وہیلز" پروگرام خواتین کو موٹر سائیکل چلانے کی تربیت دیتا ہے، تا کہ وہ نقل و حمل میں خود مختار ہو سکیں۔

پاکستان میں خواتین کے حوالے سے صورت حال اگرچہ آئیڈیل نہیں ہے، لیکن ویمن بینک سے لے کر خواتین پولیس اسٹیشن تک بہت سی سہولتیں ہیں، جو کہ سرکاری اور نجی طور پر خواتین کے لیے فراہم کی جا رہی ہیں۔

مختلف سرکاری محکموں میں بھی خواتین کے لیے مخصوص اسامیوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ پاکستانی پارلیمان میں خواتین کی نمائندگی کا تناسب تقریباً 22 فی صد بنتا ہے۔ جو عالمی اوسط 26 فی صد سے کم ہے۔ اس کے مقابلے میں، نیپال میں یہ تناسب 33.09 فی صد ہے، جب کہ بھارت میں یہ 15 فی صد ہے۔ بات اگر ہندوستان کی ہے، تو ہمارے ہاں کی خواتین کی مجموعی سماجی صورت حال ان کے ہاں سے بہ تر ہے، جب کہ ہندوستان میں ہراسانی، زیادتی اور قتل کیے جانے تک کے اعداد و شمار دہلا دینے والے ہیں۔

اس لحاظ سے ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ تیسری دنیا کے ایک پس ماندہ ماحول سے نبرد آزما ہونے کے باوجود پاکستان خواتین کی صحت، تعلیم اور ان کے لیے مواقع کے اعتبار سے اپنی صورت حال کو بہ تر کر رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے متوازن انداز میں روایتی اقدار کو سامنے رکھتے ہوئے خواتین کو مردوں کے شانہ بہ شانہ کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں، تا کہ خواتین کے حقوق کی راہ میں حائل ہونے والے حلقوں کو تنقید کرنے یا رکاوٹیں ڈالنے کا موقع نہ ملے۔

اگر خواتین کے حوالے سے معاشرے کا مائنڈ سیٹ تبدیل ہو جائے تو خواتین کی بہ تری کی بہت سی راہیں خود بہ خود ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات