پاکستان: اقلیتوں کے خلاف جرائم میں سرکاری ملی بھگت کا الزام

یو این جمعرات 24 جولائی 2025 22:45

پاکستان: اقلیتوں کے خلاف جرائم میں سرکاری ملی بھگت کا الزام

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 24 جولائی 2025ء) انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے ماہرین نے پاکستان کی حکومت سے کہا ہے کہ وہ ملک میں ماورائے عدالت ہلاکتوں، ناجائز گرفتاریوں، عبادت گاہوں پر حملوں اور احمدیوں سمیت مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔

ماہرین نے کمزور طبقات کے خلاف مذہبی بنیاد پر بڑھتے ہوئے تشدد کی اطلاعات کو خوفناک قرار دیتے ہوئے کہا ہےکہ ان لوگوں کو مہینوں سے متواتر ہراسانی، حملوں اور ہلاکتوں کے واقعات کا سامنا ہے جو ان کے خلاف دشمنی اور نفرت انگیز مہم کے تناظر میں جاری ہیں۔

Tweet URL

انہوں نے واضح کیا ہے کہ ایسے واقعات کے ذمہ داروں کا محاسبہ یقینی بنانا ہو گا کیونکہ قانونی کارروائی نہ ہونے کے باعث حملوں، نفرت اور تشدد پر اکسانے والے عناصر بلاروک و ٹوک ان جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

ان واقعات میں سرکاری حکام کی خاموش ملی بھگت بھی شامل ہوتی ہے جبکہ منفی نتائج کا خوف لوگوں اور اداروں کو اقلیتوں کے حقوق اور وقار کا دفاع کرنے سے روکتا ہے۔

عبادت گاہوں کا انہدام

ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال احمدی عقیدے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو قتل، دوران حراست ہلاکتوں اور ناجائز گرفتاریوں سمیت حقوق کی پامالی کے بہت سے واقعات کا سامنا رہا۔

انہیں مذہبی بنیاد پر تفریق کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ڈسکہ میں ان کی 100 سالہ قدیم مسجد منہدم کر دی گئی، کراچی کے علاقے میں ملیر میں ایک عبادت گاہ کو بند کر دیا گیا اور بہاولنگر میں واقع مسجد کے مینار توڑ دیے گئے۔

کشمیر کے علاقے کوٹلی میں احمدیوں کے قبرستان میں 82 قبروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ عید کے موقع پر سرگودھا، ڈسکہ، پسرور اور کراچی کے علاقے عزیزآباد میں احمدی عقیدے کے پیروکاروں کی بڑی تعداد کو گرفتار کیا گیا جن میں بچے اور جسمانی معذور افراد بھی شامل تھے۔

اس دوران کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں احمدیوں کی مساجد کو بند کر دیا گیا۔

نفرت اور تشدد

ماہرین نے کہا ہے کہ ملک میں توہین مذہب کے الزام میں زیرحراست لوگوں بالخصوص خواتین کو صنفی بنیاد پر نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ حقوق کی یہ پامالیاں پاکستان میں احمدی اقلیت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خلاف وسیع تر مخالفانہ رویے کی عکاس ہیں جبکہ سیاسی و مذہبی شخصیات کی جانب سے اظہار نفرت اور تشدد کی ترغیب نے ایسے واقعات کی تعداد اور شدت میں اضافہ کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ جون 2024 میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر تمام شہریوں کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانے پر زور دیا تھا لیکن اس کے باوجود اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ پاکستان اپنے ہاں توہین مذہب کے قوانین کو ختم کرے۔

مدد کی پیشکش

ماہرین نے پاکستان کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ حقوق کی ان پامالیوں کی فوری تحقیقات کرے، ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے اور بالخصوص احمدی اقلیت کے ارکان کا تحفظ اور سلامتی یقینی بنانے کے لیے بلاتاخیر اقدامات اٹھائے۔ اس معاملے میں بعض گرفتاریاں اور عدالتی کارروائی خوش آئند اقدامات ہیں، لیکن مجرموں کو دی جانے والی سزائیں ان کے جرائم کی شدت کے مقابلے میں بہت کم تھیں اور متعدد ملزم سزا سے بچنے میں کامیاب رہے۔

ماہرین کا کہنا ہےکہ وہ پاکستان کی حکومت کو شہری و سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدے اور انسانی حقوق سے متعلق دیگر بین الاقوامی معاہدوں کے تحت اس کی ذمہ داریوں کی تکمیل میں مدد دینے کے لیے تیار ہیں۔