اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 مئی 2025ء) پاکستانی صوبہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر علاقے یا تو انٹرنیٹ سہولیات سے محروم ہیں یا پھر وہاں انٹرنیٹ کی رفتار انتہائی سست ہے، جو کمیونٹی کے لیے آن لائن کاروبار اور کام کے مواقع تلاش کرنے کے لیے ناکافی ہے، اور طلبہ کے لیے آن لائن تحقیق کا مناسب کام ممکن نہیں۔
مقامی کمیونٹیز کا ماننا ہے کہ انہیں ان بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جا رہا ہے جن سے ملک کے باقی حصے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ حکومت بھی آئی ٹی کے فروغ کے لیے بطاہرکوشاں نظر آتی ہے لیکن بلوچوں کا سوال ہے کہ انہیں کیوں محروم رکھا جا رہا ہے۔ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن: پاکستان تیزی سے بدلتے دس ممالک میں سے ایک، نئی رپورٹ
پاکستان انٹرنیٹ کی رفتار کے لحاظ سے سست ترین ممالک میں شامل
خصوصاً پنجگور، تربت اور آواران جیسے اضلاع میں لوگ بڑی حد تک ڈیجیٹل سہولیات سے محروم ہیں۔
(جاری ہے)
سماجی کارکنوں، اساتذہ اور طلباء کا کہنا ہے کہ ریاست کی یکطرفہ پالیسی اور سکیورٹی کے نام پر انٹرنیٹ کی بندش نے ایک پوری نسل کو ڈیجیٹل دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا ہے۔
ایک سوال بار بار اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر حکومت کب تک امن و امان کے نام پر ڈیجیٹل تاریکی کا جواز پیش کرتی رہے گی، جبکہ مقامی کمیونٹیز خاموشی سے اس کا خمیازہ بھگت رہی ہیں؟پنجگورجو 10 لاکھ کی آبادی کا شہر ہے۔ جس سے تعلق رکھنے والے صحافی رفیق چاكر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے علاقے کے لوگ تعلیم کا شوق رکھتے ہیں اور تقریباً 60 فیصد آبادی تعلیم یافتہ ہے۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ نوجوان اپنی تعلیم کو کسی منافع بخش آن لائن کام میں استعمال نہیں کر پا رہے، جیسے ملک کے دیگر علاقوں کے نوجوان کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے کئی مظاہرے کیے جا چکے ہیں لیکن سب بے سود ثابت ہوئے، اور ریاست انہیں دنیا سے جڑنے کے حق سے محروم کر رہی ہے۔‘‘ چاكر کا کہنا تھا کہ شہر میں پی ٹی سی ایل کے انٹرنیٹ کنکشن بہت کم ہیں اور جو موجود ہیں وہ بھی انتہائی سست رفتار ہیں۔یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ پنجگور شہر میں مکران یونیورسٹی بھی قائم ہے، جہاں آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ بھی ہے، مگر نہ تو یونیورسٹی میں اور نہ ہی طلبہ کے گھروں میں مناسب انٹرنیٹ سروس دستیاب ہے۔
مکران یونیورسٹی میں ادب کے لیکچرار مجاہد بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ اپنے طلبہ کو آن لائن تحقیق کے لیے موضوعات نہیں دے سکتے کیونکہ ان کے گھروں پر انٹرنیٹ دستیاب نہیں۔
انہوں نے کہا، ''ہمارے طلبہ دنیا سے کٹے ہوئے ایک دور دراز گاؤں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ حتیٰ کہ یونیورسٹی میں بھی تیز رفتار انٹرنیٹ موجود نہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ان تمام مشکلات کے باوجود یونیورسٹی میں 1200 طلبہ زیرِ تعلیم ہیں، جن میں سے تقریباً 100 آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ میں ہیں اور ان میں اکثریت طالبات کی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس علاقے کے لوگ تعلیم کے لیے کتنے پرجوش ہیں۔کیا بلوچستان کے نوجوان بھی انٹرنیٹ سے کچھ کماتے ہیں؟
سماجی حقوق کے کارکنان کا ماننا ہے کہ حکومت پورے صوبے کی آبادی کو دہشت گرد تصور کر کے ان کے ساتھ ایک جیسا سلوک نہیں کر سکتی، بلکہ عام شہریوں کو جینے اور ترقی کرنے کا حق دیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے عوام کو ترقی کے مواقع فراہم کرنا ہی معاشرے میں انتہا پسندانہ سوچ کو ختم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
سماجی کارکن پروین ناز، جو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں کام کا تجربہ رکھتی ہیں، کہتی ہیں کہ دنیا بھر میں فری لانسنگ کا رجحان بڑھ رہا ہے اور بلوچستان کے نوجوان بھی ایسے مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، لیکن صرف ریاست کی پالیسی جو انہیں دنیا سے کاٹ کر رکھتی ہے، ان کی ترقی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
پروین کا کہنا تھا کہ ان تمام مشکلات کے باوجود کئی نوجوان، خصوصاً خواتین، جہاں کہیں بھی انٹرنیٹ دستیاب ہو، اپنی بھرپور کوششوں سے آن لائن روزگار حاصل کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاوہ حب چوکی، بیلہ، گوادر، خضدار اور مستونگ جیسے علاقوں میں کچھ مخصوص کمپنیوں اور مقامات پر انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے، جہاں لڑکیاں بین الاقوامی کلائنٹس کے لیے کام کر کے نہ صرف اپنی روزی کما رہی ہیں بلکہ ملکی معیشت میں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔پروین ناز کہتی ہیں، ''حکومت کو اپنے نگرانی کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا۔
مسئلے کا حل یہ نہیں کہ عوام کے درمیان رابطے منقطع کر دیے جائیں۔ حکومت عام لوگوں، جو بمشکل اپنی گزر بسر کر رہے ہیں، اور دہشت گردوں کو ایک جیسا نہیں سمجھ سکتی۔‘‘ماہی گیروں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے
بلوچ عوام کو صرف انٹرنیٹ کی سہولیات کی عدم دستیابی نے پیچھے نہیں رکھا بلکہ ماہی گیری سے وابستہ ایک بڑی کمیونٹی بھی معاشی طور پر شدید متاثر ہو رہی ہے کیونکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بڑے فشنگ ٹرالروں کو ساحلی علاقوں میں داخل ہونے سے روکنے میں ناکام ہیں، جہاں مقامی ماہی گیر مچھلیاں پکڑنے کے لیے انحصار کرتے ہیں۔
تربت کے رہائشی نواز احمد بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے نوجوانوں کو دنیا سے جڑنے کے مواقع نہ ملنے سے نقصان ہو رہا ہے، لیکن مجموعی طور پر ہماری پوری کمیونٹی روزگار کے مواقع سے محروم ہو رہی ہے کیونکہ بڑی فشنگ ٹرالروں نے ہمارے وسائل دن دہاڑے چھین لیے ہیں اور کوئی کچھ نہیں کر رہا۔‘‘
یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ گوادر اور تربت کی مقامی آبادی بڑے فشنگ ٹرالروں کے خلاف مسلسل احتجاج کر رہی ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کی آواز اب تک نہیں سنی گئی۔
لوکل اتھارٹیز کا کیا رول ہے؟
جہاں تک انٹرنیٹ کی سروسز کا تعلق ہے، ایسا لگتا ہے کہ مقامی حکام بھی بے بس ہیں۔ جب ڈی ڈبلیو نے پنجگور کے ڈپٹی کمشنر زاہد لانگو سے اس مسئلے پر تبصرہ کرنے کے لیے رابطہ کیا، تو انہوں نے کہا، ''علاقے میں فیصلے لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم ہے، لیکن سکیورٹی کے اداروں نے انٹرنیٹ سروسز پر پابندی عائد کی ہوئی ہے اور وہ اس موضوع پر مزید تبصرہ نہیں کر سکتے۔‘‘
ادارت: افسر اعوان