Live Updates
سخت قوانین اور سزاؤں پر عملدرآمد کی صورت میں ہی پلاسٹک کے استعمال کوکم اورختم کیاجاسکتاہے، وائس چانسلر جامعہ کراچی
منگل 3 جون 2025
21:34
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 جون2025ء) جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر خالد محمودعراقی نے کہا کہ پلاسٹک کی آلودگی نہ صرف آبی ماحولیاتی نظام اور اس کی انواع کی صحت کو متاثر کرتی ہے بلکہ یہ انسانی صحت اور ان سمندری ماحول پر انحصارکرنے والوں کو بھی متاثر کرتی ہے،پلاسٹک کی ری سائیکلنگ انفرا اسٹرکچر اور ویسٹ مینجمنٹ سسٹم کو بہتربنانے اور پلاسٹک کی پروڈکشن اور اس کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے پالیسیاں مرتب کرنے کی ضرورت ہے،جب تک حکومتی سطح پر پلاسٹک کے استعمال پر سخت پابندی اور خلاف ورزی کی صورت میں سزاؤں پر عملدرآمد کو یقینی نہیں بنایاجائے گا،اس ملک اور بالخصوص شہر کراچی سے پلاسٹک کو ختم نہیں کیاجاسکتا،پلاسٹک کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ اس تک رسائی کو ختم کیاجائے،دکانوں اور مارکیٹوں میں پلاسٹک کی عدم موجودگی سے پلاسٹک کو بتدریج کم بلکہ ختم کیاجاسکتاہے،دنیا بھر میں قانون کا خوف اور اس پر عملدرآمد ہوتاہے جبکہ ہمارے یہاں معاملات اس کے برعکس ہیں۔
(جاری ہے)
جاری اعلامیہ کے مطابق ان خیالات کا اظہارانہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف انوائرمینٹل اسٹڈیز جامعہ کراچی کے زیر اہتمام چائنیز ٹیچرز میموریل آڈیٹوریم جامعہ کراچی میں عالمی یوم ماحولیات کی مناسبت سے منعقدہ سیمینار بعنوان ”پلاسٹک کی آلودگی کا خاتمہ“ سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ڈاکٹر خالد عراقی نے مزید کہا کہ پلاسٹک کی آلودگی نہ صرف ماحولیاتی نظام بلکہ اس زمین پر زندگی کی دیگر اقسام کے لیے بھی خطرہ بن رہی ہے۔
شہرکراچی کے تواترکے ساتھ بڑھتے ہوئے چیلنجزسے نبردآزماہونے کے لئے ہم سب کو اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کا ادراک ہوناچاہیئے اور ان چیلنجزسے نمٹنے کے لئے ہم سب کو محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ڈائریکٹرجنرل سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی وقارحسین پھلپھوٹونے کہا کہ پلاسٹک کے خاتمے کے لئے ہم سب کو اپنا اپنا کردار اداکرناہوگا،ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی اور آگاہی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی ادارے اور بالخصوص جامعات آگاہی کا بہترین ذریعہ ہوتے ہیں اور آپ پلاسٹک کے خاتمے اور اس کے استعمال میں کمی کے لئے کلیدی کردار اداکرسکتے ہیں۔ہمیں اپنا طرز زندگی بدلنے اور عملی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا آغاز سب سے پہلے اپنی ذات سے کرناہوگا۔رئیس کلیہ علوم جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹر مسرت جہاں یوسف نے کہا کہ پلاسٹک کے ماحولیات،آبی حیات اور انسانی صحت پر پڑنے والے مضراثرات سے متعلق آگاہی کوفروغ دینا ناگزیر ہے۔
پلاسٹک کے استعمال کوکم کرنے کے لئے ہمیں اس کا متبادل لانے اور اس کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔انسٹی ٹیوٹ آف انوائرمینٹل اسٹڈیز جامعہ کراچی کے پروفیسرومعروف ماہرحولیات ڈاکٹر معظم علی خان نے کہا کہ ایک بار کوئی پلاسٹک کی چیز وجود میں آگئی تو وہ ہمارے ماحول کا حصہ بن گئی۔ری سائیکل کا ہمارے ہاں رواج نہیں۔ کچرے کو جلا دیا جاتا ہے جو ماحول کے لیے خود ایک تباہ کن عمل ہے۔
ہم فخر سے دعویٰ کر سکتے ہیں کہ جامعہ کراچی نے 1996 میں پہلی ایم ایس سی ماحولیاتی سائنس کی ڈگری متعارف کروائی، جس وقت لوگوں کو شاید ہی معلوم ہو کہ ماحولیات کا اصل مضمون کیا ہے۔یہ تاثر غلط ہے کہ اعلیٰ تعلیمی ادارے معاشرتی مسائل کے حل کے لئے کچھ نہیں کررہے ہیں،جامعات اپنی تحقیق کے ذریعے نہ صرف معاشرتی مسائل کی نشاندہی بلکہ اس کا حل بھی پیش کرتی ہے۔
ہمیں اپنے رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اسی صورت ہم ماحولیاتی آلودگی سے نبردآزماہوسکتے ہیں۔ڈائریکٹرانسٹی ٹیوٹ آف انوائرمینٹل اسٹڈیز جامعہ کراچی ڈاکٹر فرخ نواز نے کہا کہ میں پلاسٹک کی افادیت سے انکار نہیں، لیکن ہم پلاسٹک کے استعمال پر بہت زیادہ انحصار کر چکے ہیں جس کے کچھ سنگین نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پرہر منٹ میں پلاسٹک کی تقریباً 10 لاکھ پینے کی بوتلیں خریدی جا رہی ہیں اور ہر سال 5 ٹریلین تک ڈسپوزایبل پلاسٹک کے تھیلے استعمال ہوتے ہیں۔
اگر ہم مجموعی طور پر دیکھیں تو تقریباً 50 فیصد پلاسٹک جو گردش میں ہے صرف ایک بار استعمال کیا جاتاہے۔ہر سال تقریباً 13 ملین ٹن پلاسٹک سمندروں میں پھینکا جاتا ہے جس کی وجہ سے آبی حیات کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں۔سوسائٹی فارہیومن رائٹس اینڈ انوائرمینٹل پروٹیکشن این جی او کے صدر سعید راجپوت نے کہا کہ پاکستان ماحولیاتی مسائل سے دوچارہے،بدقسمتی سے کراچی میں ایک ہی واٹرٹریٹمنٹ پلانٹ ہے اور وہ بھی خراب ہے جس کی وجہ سے زہریلاپانی بغیر ٹریٹمنٹ کے سمندرمیں جارہاہے۔آلودگی پھیلانے میں ہمارابھی حصہ ہے کیونکہ ہم اس حوالے سے اپنا کردار اداکرنے کو تیارنہیں، ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لئے ہم سب کو اپنا کردارادااور آگاہی کو فروغ دینا ہوگا۔
آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات