امریکی سفری پابندیاں، ایرانی فٹبال شائقین مایوسی کا شکار

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 7 جون 2025 12:00

امریکی سفری پابندیاں، ایرانی فٹبال شائقین مایوسی کا شکار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 جون 2025ء) فیفا ورلڈ کپ 2026ء کے آغاز میں ایک سال کا وقت رہنے کے باجود ایرانی فٹبال شائقین اپنی ٹیم کی حمایت کے خواب کو ٹوٹتے دیکھ رہے ہیں کیونکہ امریکہ کی نئی سفری پابندیوں نے انہیں ''بڑے شیطان‘‘ یعنی امریکہ میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔

اس مرتبہ امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی کر رہے ہیں، تاہم فائنل سمیت زیادہ تر میچز امریکہ میں کھیلے جائیں گے۔

ایران کے بہت سے شائقین اس امید پر زندہ تھے کہ وہ امریکہ میں ہونے والے میچز میں اپنی قومی ٹیم کو سپورٹ کر سکیں گے، لیکن بدھ کے روز صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جاری نئی سفری پابندی کے اعلان نے ان کی اس خواہش کا دم توڑ دیا ہے۔

(جاری ہے)

تہران کے رئیل اسٹیٹ ایجنٹ سہراب نادری نے اے ایف پی کو بتایا، ''ہم سالوں سے انتظار کر رہے تھے کہ ٹیم ملی (ایرانی قومی ٹیم) کو ورلڈ کپ میں امریکہ کی زمین پر کھیلتے دیکھیں، اور جب وہ کوالیفائی ہوئی تو یہ زندگی میں ایک بار آنے والا نادر موقع محسوس ہوا۔

‘‘

انہوں نے کہا، ''اب یہ نئی پابندی ہماری سیاست سے ناواقف اور بے قابو خواہشات کو ختم کر رہی ہے۔‘‘

ایران اور امریکہ کے مابین دو طرفہ تعلقات 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے کشیدہ ہیں اور دونوں ممالک کے مایبن سفارتی تعلقات بھی منقطع ہیں۔ دونوں ممالک اس وقت ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات میں مصروف ہیں، جبکہ امریکہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر معاہدہ نہ ہوا تو عسکری کارروائی کا امکان ہے۔

صدر ٹرمپ نے نئی پابندی کی وجہ کولوراڈو میں ایک یہودی احتجاج پر ہوئے فلیم تھروور حملے کو قرار دیا ہے، جسے امریکی حکام نے ایک غیر قانونی باشندے کی کارروائی قرار دیا ہے۔ تاہم، پابندی میں 2026 کے ورلڈ کپ اور 2028 کے لاس اینجلس اولمپکس کے کھلاڑی شامل نہیں ہوں گے۔

تاہم ایرانی شائقین جو اپنی ٹیم کی حمایت کے لیے امریکہ جانا چاہتے تھے، اب یہ موقع کھو بیٹھے ہیں۔

سولہ سالہ فٹبال شائقہ ہستی تیمورپور نے کہا، ''ہر ایرانی کو اپنی ٹیم کی حمایت کا حق حاصل ہے، چاہے کھیل امریکہ میں ہو یا کہیں اور۔‘‘

صدر ٹرمپ کی حکومت نے جنوری میں دوبارہ ایران کے خلاف ''زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی پالیسی اپنائی ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر ایران جوہری معاہدے کی طرف جلدی پیش رفت نہ کرے تو''برا واقعہ‘‘پیش آ سکتا ہے۔

رئیل اسٹیٹ ایجنٹ سہراب نادری نے اس پابندی کو ''غیر انسانی‘‘ اور ''تمام ایرانیوں کی توہین‘‘ قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ جوہری مذاکرات کامیاب ہوں گے اور ٹرمپ اپنی رائے بدل سکتے ہیں۔

ایران اور امریکہ کے مذاکرات اپریل سے جاری ہیں لیکن ان کے نتائج ابھی غیر یقینی ہیں۔ کئی ایرانی شائقین کو خدشہ ہے کہ چاہے معاہدہ ہو بھی جائے، تب بھی وقت بہت کم رہ جائے گا۔

تاہم کچھ ایرانی شائقین ورلڈ کپ کو تعلقات بہتر کرنے کا موقع سمجھتے ہیں۔ سیاسی مبصر محمد رضا منافی نے کہا، ''کھیلوں کی سفارت کاری سیاسی سفارتکاروں کے کام کو تیز کر سکتی ہے۔‘‘ان کا کہنا تھا، ''یہ دونوں ممالک کے تعلقات بہتر کرنے کا ایک اہم موقع ہو سکتا ہے۔‘‘

1998 کے ورلڈ کپ میں ایران اور امریکہ کے درمیان میچ میں ایرانی کھلاڑیوں نے امریکی کھلاڑیوں کو پھول دیے اور ان کے ساتھ تصویر کھینچوائی تھی، جو دونوں ممالک کے درمیان نایاب خیرسگالی کی علامت تھی۔

ایران نے وہ میچ ایک کے مقابلے میں دو گول سے جیتا تھا، جسےتہران میں سیاسی اور کھیلوں کی فتح کے طور پر منایا گیا تھا۔

2026 کے ڈرا کے ساتھ یہ سوال اب بھی کھڑا ہے کہ کیا ایران اور امریکہ دوبارہ آمنے سامنے ہوں گے، مگر شائقین کی توقعات بڑھ رہی ہیں۔ ایک مزدور سیامک کلانتری نے کہا، ''دونوں ممالک ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں، یہ سیاسی مسئلہ ہے جو حکومتوں کے درمیان ہے۔‘‘

ایک اور شائقہ اٹھارہ سالہ مہدیہ الفتی نے کہا، ''اگر ہم دوبارہ امریکہ سے مقابلہ کریں گے تو ہم ضرور جیتیں گے۔ ہمارے کھلاڑی بہترین ہیں۔‘‘

شکور رحیم اے ایف پی کے ساتھ

ادارت: کشور مصطفیٰ