اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 جون 2025ء) افغان طالبان کے وزیر اعظم محمد حسن اخوند نے عید الاضحٰی کے موقع پر اپنے پیغام میں افغانستان چھوڑ جانے والے افغان شہریوں کو عام معافی کی پیش کش کی ہے۔
یہ پیشکش امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان سمیت 12 ممالک پر سفری پابندی کے اعلان کے بعد سامنے آئی ہے۔ اس اقدام کے تحت امریکہ میں مستقل طور پر آباد ہونے کے خواہشمند افغانوں کے ساتھ ساتھ عارضی طور پر امریکہ جانے کے خواہشمند افراد، جیسے یونیورسٹی کی تعلیم کے لیے جانے والوں پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔
ٹرمپ نے جنوری میں پناہ گزینوں کا بنیادی پروگرام کو بھی معطل کر دیا تھا، جس کے تحت ان افغانوں کو امریکہ میں مستقل رہائش دی جانا تھی جنہوں نے افغان جنگ کے دوران امریکی فورسز کی مدد کی تھی۔
(جاری ہے)
افغانستان کے ہمسایہ ملکپاکستان میں مقیم افغان باشندوں کو جو امریکہ اور یورپی ممالک میں آباد کاری کے منتظر ہیں، اسلام آباد حکومت کی جانب سے ملک بدری کی مہم کا بھی سامنا ہے۔
اکتوبر 2023 ء سے اب تک تقریباﹰ 10 لاکھ افغان باشندے گرفتاری اور ملک بدری سے بچنے کے لیے پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔اخوند کا چھٹیوں کا پیغام سوشل پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کیا گیا ہے جس میں انہوں نے لکھا، ''جو افغان ملک چھوڑ چکے ہیں وہ اپنے وطن واپس آ جائیں… کوئی انہیں نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘
انہوں نے مزید لکھا، ''اپنی آبائی سرزمین پر واپس آئیں اور امن کے ماحول میں رہیں۔
طالبان رہنما نے افغان حکام کو ہدایت کی کہ وہ واپس آنے والے پناہ گزینوں کے لیے مناسب انتظامات کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ انہیں پناہ اور مدد فراہم کی جائے۔اگست 2021 کے وسط میں طالبان نے اس وقت دارالحکومت کابل سمیت افغانستان کے بیشتر حصوں پر قبضہ کر لیا تھا جب امریکہ اور نیٹو افواج 20 سال کی جنگ کے بعد ملک سے انخلا کے آخری مراحل میں تھیں۔
اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع ہوئی اور ہزاروں افغان شہری امریکی فوج کے ہوائی جہازوں کے ذریعے ملک سے نکلنے کی امید میں ہوائی اڈے پر جمع ہو گئے۔ ہزارہا لوگ سرحد پار کر کے ہمسایہ ممالک ایران اور پاکستان بھی چلے گئے تھے۔
طالبان حکمرانوں سے فرار ہونے والوں میں سابق سرکاری عہدیدار، صحافی، انسانی حقوق سرگرم کارکن بھی شامل تھے، جنہوں نے طالبان کے خلاف مہم کے دوران امریکہ کی مدد کی تھی۔
ادارت: کشور مصطفیٰ