اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 جون 2025ء) پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے 2025-26 کے لیے پیش کیے گئے وفاقی بجٹ میں دفاع اور قرضوں کی ادائیگیوں کو فوقیت ملنے کے باعث ترقیاتی کاموں اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے مالی گنجائش محدود ہو گئی ہے۔
پاکستان کے نئے بجٹ میں نیا کیا ہو سکتا ہے؟
پاکستان: رواں مالی سال اقتصادی شرح نمو 2.7 فیصد رہنے کی توقع
نصف بجٹ قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے مختص
آج 10 جون کو پیش کیے جانے والے پاکستان کے وفاقی بجٹ کے مطابق، صرف قرضوں کی ادائیگی پر 8.2 ٹریلین روپے خرچ ہوں گے، جو پورے بجٹ کا تقریباً نصف ہے۔
یہ صورتحال ملکی اور غیر ملکی قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کی عکاسی بھی کرتی ہے۔دفاعی شعبے کے لیے 2.5 ٹریلین روپے مختص کیے گئے ہیں، جو گزشتہ سال کے 2.1 ٹریلین روپے کے مقابلے میں 0.4 ٹریلین روپے کا اضافہ ہے، جس کے باعث تعلیم، صحت، اور سماجی تحفظ جیسے اہم شعبوں کے لیے مالی وسائل مزید محدود ہو گئے ہیں۔
(جاری ہے)
ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ پاک-بھارت جنگ کے تناظر میں دفاعی بجٹ میں اضافہ متوقع تھا اور یہ اضافہ ناگزیر تھا۔
بجٹ میں دیگر اہم مختص رقوم میں ایک ٹریلین روپے پنشن ادائیگیوں کے لیے، 1.9 ٹریلین روپے صوبوں کو گرانٹس اور مالی منتقلیوں کے لیے، 1.2 ٹریلین روپے سبسڈی کے لیے، اور ایک ٹریلین روپے وفاقی حکومت کے روزمرہ امور چلانے کے لیے رکھے گئے ہیں۔ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (PSDP)، جسے معیشت کی ترقی کا انجن سمجھا جاتا ہے، اسے محدود کر کے صرف ایک ٹریلین روپے تک کر دیا گیا ہے، جو گزشتہ سال کے 1.4 ٹریلین روپے سے کم ہے، جس سے انفراسٹرکچر اور سماجی ترقی کے منصوبوں میں تاخیر پر خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
کل آمدن 19.2 ٹریلین روپے متوقع
محصولات کے حوالے سے حکومت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ذریعے 14.1 ٹریلین روپے کی ٹیکس وصولی کا ایک بلند ہدف مقرر کیا ہے، جبکہ نان ٹیکس آمدن کو 5.1 ٹریلین روپے تک پہنچانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ کل آمدن 19.2 ٹریلین روپے متوقع ہے، جس میں سے 8.2 ٹریلین روپے صوبوں کو قابل تقسیم محاصل میں ان کے حصے کے طور پر دیے جائیں گے۔
اپنی بجٹ تقریر کے دوران، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے صنعتوں کے لیے بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا تاکہ پیداوار میں اضافہ ہو سکے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ملک کے ٹیکس بہ نسبت مجموعی قومی پیداوار (ٹیکس ٹو جی ڈی پی) کے تناسب کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، جو اس وقت صرف 10 فیصد ہے۔ حکومت کا ہدف ہے کہ آئندہ برسوں میں اسے 14 فیصد تک لے جایا جائے۔
ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی حوصلہ افزائی کے لیے، وفاقی وزیر نے کہا کہ ٹیکس ریٹرن کا عمل آسان بنایا جا رہا ہے۔ یکم جولائی سے، نئی ریٹرن فارم میں صرف سات بنیادی سوالات شامل ہوں گے، جس سے افراد اور چھوٹے کاروباری حضرات کے لیے فائلنگ آسان ہو جائے گی۔
آئندہ سال کے لیے شرح نمو کے اہداف
حکومت نے معاشی بحالی کی توقعات کو ظاہر کرنے کے لیے شعبہ جاتی ترقی کے ہدف بھی مقرر کیے ہیں۔
جی ڈی پی کی شرح نمو کا ہدف 4.2 فیصد، زراعت کا 4.5 فیصد، اور چھوٹی صنعتوں کا 8.7 فیصد مقرر کیا گیا ہے، جبکہ بجٹ میں معاشی بحالی کے لیے ہدف مقرر کیے گئے ہیں، کچھ ایسے خواب بھی ہیں جن کو کامیاب بنانے کے لیے صوبوں کی مدد کی ضرورت ہے، جیسے کہ زرعی ترقی کا ٹارگٹ۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ زراعت کی ترقی تبھی ممکن ہے جب صوبے ایسی پالیسیاں بنائیں جو وفاقی حکومت کے 4.5 فیصد کے ہدف کے مطابق ہوں۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ جاری مالی سال کے دوران زراعت کی شرح نمو صرف 0.5 فیصد رہی۔کسانوں کے نمائندہ عامر حیات بھندارا نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ زراعت ایک صوبہ جاتی موضوع ہے اور اس کے لیے پالیسیوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ یہ شعبہ ترقی کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ 0.5 فیصد کی زراعت کی موجودہ رپورٹنگ نمو تشویشناک ہے اور ''موجودہ پالیسیوں میں مستقل مزاجی کے بغیر، زراعت میں ترقی کے خواب کو عملی جامہ پہنانا مشکل ہو سکتا ہے۔‘‘