اسرائیل کے غزہ سکولوں، مذہبی مقامات پرحملے جرم کے مترادف ہیں، اقوامِ متحدہ ماہرین

بدھ 11 جون 2025 08:50

اقوام متحدہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 جون2025ء) اقوامِ متحدہ کے ایک آزاد کمیشن نے کہا ہے کہ غزہ میں سکولوں، مذہبی مقامات اور ثقافتی اداروں پر اسرائیلی حملے جنگی جرائم اور فلسطینیوں کو ختم کرنے کے لیے انسانیت کے خلاف جرم کے مترادف ہیں۔العربیہ کے مطابق اقوامِ متحدہ کے آزاد بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن برائے مقبوضہ فلسطینی علاقہ جات نے ایک رپورٹ میں کہا کہ اسرائیل نے غزہ کے تعلیمی نظام ختم اور غزہ کی پٹی میں تمام مذہبی اور ثقافتی مقامات کو تباہ کر دیا ہے۔

کمیشن نے اسرائیلی افواج پر تعلیمی مراکز پر حملوں میں "شہریوں کے خلاف حملوں اور دانستہ قتل سمیت جنگی جرائم" کے ارتکاب کا الزام لگایا جس سے شہری ہلاکتیں ہوئیں۔اگرچہ ثقافتی املاک بشمول تعلیمی سہولیات کی تباہی ازخود نسل کشی کا عمل نہیں تھا لیکن رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ایسے طرزِ عمل کے شواہد پر کسی محفوظ گروہ کو تباہ کرنے کے لیے نسل کشی کے ارادے کا قیاس کیا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

کمیشن کی سربراہ ناوی پلے نے ایک بیان میں کہا کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی زندگی ختم کرنے کے لیے ایک مشترکہ مہم چلا رہا ہے۔ غزہ میں بچے اپنا بچپن کھو چکے ہیں۔ وہ حملوں، غیر یقینی صورتِ حال، فاقہ کشی اور نیم انسانی حالات میں بقا کی فکر کرنے پر مجبور ہیں۔سہ رکنی کمیشن نے کہا کہ اسرائیلی حملوں میں "مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا گیا جو پناہ گاہوں کا کام دیتے تھے جس میں خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔

یہ کمیشن اقوامِ متحدہ نے اسرائیل کے زیرِ قبضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی اور انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے قائم کیا تھا۔مئی میں اقوامِ متحدہ کے انسانی امداد کے سربراہ ٹام فلیچر نے سلامتی کونسل کے ارکان پر زور دیا کہ وہ غزہ میں "نسل کشی روکنے کے لیے" اقدام کریں۔ اسرائیل نے نسل کشی کے ارتکاب سے انکار کیا ہے۔

ٹام فلیچر نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اسرائیل غزہ کی امدادی ناکہ بندی ختم کرے جہاں اقوامِ متحدہ کے مطابق بیس لاکھ سے زائد افراد کی پوری آبادی کو قحط کا خطرہ لاحق ہے۔ ٹام فلیچر نے 14 مئی کو کہا کہ ہلاک شدگان اور جن کی آوازیں خاموش ہو گئی ہیں، اب آپ کو ان کے لیے مزید کیا ثبوت چاہیے؟ کیا آپ نسل کشی روکنے اور بین الاقوامی انسانی قانون کے احترام کو یقینی بنانے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کریں گے؟۔

اقوامِ متحدہ کمیشن کی رپورٹ میں بنیادی طور پر غزہ پر توجہ مرکوز کی گئی لیکن اس میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں بشمول مشرقی بیت المقد س اور اسرائیل کے اندر واقع علاقوں میں اسرائیلی کارروائیوں پر بھی توجہ دی گئی تھی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیل نے مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کو روکنے یا ان پر مقدمہ چلانے کے لیے "بہت کم کارروائی" کی ہے جنہوں نے "دانستہ تعلیمی مراکز اور طلباء کو نشانہ بنایا تاکہ کمیونٹیز کو دہشت زدہ اور ان کے گھر چھوڑنے پر مجبور کیا جا سکے۔

اس میں کہا گیا کہ اسرائیلی حکام نے غزہ کی شہری آبادی کے لیے تشویش یا ان سے یکجہتی کا اظہار کرنے والے اسرائیلی اور فلسطینی اساتذہ اور طلباء کو ڈرایا دھمکایا اور بعض صورتوں میں حراست میں لیا۔کمیشن نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ ثقافتی، مذہبی اور تعلیمی اداروں پر حملے بند، فلسطینی سرزمین پر اپنا غیر قانونی قبضہ فوری ختم اور آباد کاری کی تمام سرگرمیاں بند کرے۔اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے حکم کردہ عارضی اقدامات کی مکمل تعمیل کرے جن کے تحت اسرائیل کا "غزہ میں لوگوں کے خلاف نسل کشی کرنے کے لیے براہِ راست اور عوامی اشتعال انگیزی روکنے اور اس پر سزا دینے" اور انسانی امداد کے داخلے کی اجازت دینا ضروری ہے۔